اسپیکر سبطین خان نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس 23 دسمبر تک ملتوی کردیا جبکہ ایوان میں موجود اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے اپنی حکمت عملی تیار کرلی۔

پنجاب اسمبلی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اسپیکر سبطین خان نے کہا کہ اسمبلی کا سیشن پہلے سے جاری ہے اور جب تک یہ سیشن ختم نہیں ہوتا گورنر نیا اجلاس طلب نہیں کرسکتا۔

ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق وزیراعلیٰ پر اعتماد کا معاملہ صرف اسی سیشن میں زیر بحث آسکتا ہے جو اس مقصد کے لیے خاص طور پر طلب کرلیا گیا ہو۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر اس وقت تک خصوصی اجلاس طلب نہیں کرسکتا جب تک ایوان کا اجلاس پہلے سے جاری ہو۔

ہائی کورٹ کے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ گورنر کو آئین کے آرٹیکل 109 کے تحت اجلاس طلب کرنے یا روکنے کا اختیار ہے تاہم اب تک اسمبلی کا 41 واں سیشن طلب کیا گیا لیکن کبھی روکا نہیں گیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس صورت میں گورنر کے پاس وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے اجلاس طلب کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اسی فیصلے مدنظر رکھتے ہوئے قرار دیا کہ گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم آئین کی مذکورہ شق اور قواعد کے مطابق نہیں ہے، اسی لیے مزید کارروائی نہیں ہوسکتی اور اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے۔

انہوں نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آئین اور قواعد کی تفہیم کے لیے وکلا سے ملاقات کی اور میں یہ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں اور میرے خیال میں یہ درست ہے۔

سبطین خان نے کہا کہ گورنر پنجاب کا یہ اقدام غیرقانونی اور غلط تھے۔

دوسری جانب اپوزیشن اراکین نے بھی اپنی حکمت عملی مکمل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیف وہپ خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر اتحادی اراکین کل سہہ پہر 4 بجے گورنر کے طلب کیے گئے اجلاس میں شرکت کے لیے پنجاب اسمبلی پہنچیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم گورنر کے طلب کردہ اجلاس میں شرکت کے لئے مقررہ وقت پر پنجاب اسمبلی پہنچیں گے، گورنر کا طلب کردہ اجلاس آئین و قانون کے عین مطابق ہے۔

خلیل طاہر سندھو کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کو ہر حال میں اعتماد کا ووٹ لینا ہی ہو گا ورنہ وہ اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے، اگر کل اجلاس نہ ہوا اور وزیراعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو گورنر وزیراعلی پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کر دیں گے۔

خیال رہے کہ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اراکین کی تعداد 177 ہے جبکہ اتحادی مسلم لیگ (ق) کے پاس 10 اراکین ہیں اور دوسری طرف مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور راہ حق پارٹی سمیت اپوزیشن کے پاس 176 اراکین موجود ہیں۔

گورنر پنجاب کی جانب سے اجلاس طلب

گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ اور اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی سے 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ بھی طلب کرلیا تھا۔

گورنر پنجاب کی جانب سے جاری سمری میں کہا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ اپنے پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور ان کی اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے اراکین کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’چند ہفتے قبل پنجاب کے حکمران اتحاد پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق) کے درمیان اسمبلی کی تحلیل، ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری عہدیداروں کے تبادلوں کے حوالے سے سنگین اختلافات سامنے آئے تھے‘۔

گورنر پنجاب نے کہا کہ اختلافات کے حوالے سے حال ہی میں کابینہ کے ایک رکن کی جانب سے پرویزالہٰی کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد دیا جانے والا استعفیٰ ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ 4 دسمبر کو ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ مارچ 2023 تک صوبائی اسمبلی کہیں نہیں جارہی ہے جو پی ٹی آئی کے عوام کے سامنے موجود مؤقف کے بالکل برعکس ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی کو اسمبلی میں اعتماد حاصل نہیں ہے اور اسی لیے اسمبلی کا اجلاس تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے آئین کی شق 130(7) کے تحت 21 دسمبر کو شام 4 بجے طلب کرلیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں