شرحِ نمو اور قیمتوں میں استحکام لانے میں حکومت تاحال ناکام

اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2022
اسٹیٹ بینک شرح نمو کے لیے نئی حد فراہم کرنے سے گریزاں ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
اسٹیٹ بینک شرح نمو کے لیے نئی حد فراہم کرنے سے گریزاں ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسٹیٹ بینک کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ ممالک جو قیمت اور مالی استحکام پر شرحِ نمو کو ترجیح دیتے ہیں وہ نمو کو برقرار نہیں رکھ پاتے اور انہیں بار بار بوم-بسٹ سائیکل (زیادہ شرح نمو اور پھر معاشی بحران) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت نے مالی سال 2023 کے لیے ترقی پر توجہ دینے سے گریز کیا جس کے نتیجے میں شرح نمو میں زبردست کمی کا خدشہ ہے، اس حکمت عملی کے باوجود حکومت مالی استحکام اور قیمتوں میں استحکام لانے میں بھی ناکام رہی۔

’معاشی صورتحال برائے مالی سال 2022‘ کی رپورٹ میں اسٹیٹ بینک نے تخمینہ لگایا ہے کہ مالی سال 2023 میں شرح نمو سال کے لیے مقرر کردہ 3 سے 4 فیصد کے ہدف سے بھی کم رہے گی۔

اسٹیٹ بینک، شرح نمو کے لیے نئی حد فراہم کرنے سے گریزاں ہے لیکن عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اس کے 2 فیصد کے آس پاس رہنے کی پیش گوئی کر رہی ہیں۔

شرحِ نمو میں تیزی سے گراوٹ کے اثرات تجارتی اور صنعتی شعبوں میں پہلے ہی نظر آرہے ہیں جبکہ مزید اثرات مرتب ہونے کا خدشہ بھی موجود ہے۔

ٹیکسٹائل ملرز، برآمد کنندگان اور درآمد کنندگان لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کے نہ کھلنے پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں جس نے کاروباری سائیکل کو مفلوج کر دیا ہے۔

قیمتوں پر توجہ مرکوز کرنے کے باوجود گزشتہ 5 ماہ سے مہنگائی کی شرح 25 فیصد کے قریب منڈلا رہی ہے، جس کے سبب مالی استحکام اور ترقی کے امکانات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

تجارت اور صنعتوں کے لیے ان ترجیحات کے تحت برقرار رہنا مشکل ہے جن میں قیمتوں پر زیادہ اور ترقی پر کم توجہ دی جاتی ہے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’عالمی تجربے نے ثابت کیا ہے کہ قیمتوں کا استحکام پائیدار شرح ترقی کے لیے لازمی شرط ہے، جن ممالک میں قیمتوں میں استحکام کو بنیادی ہدف سمجھا جاتا ہے ان میں افراط زر کی شرح کم ہوتی ہے، افراط زر اور شرح نمو میں اتار چڑھاؤ بھی کم ہوتا ہے‘۔

تاہم حکومتِ پاکستان شرح نمو کی قربانی دینے کے باوجود ان میں سے ایک بھی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

اسٹیٹ بینک کا قیمتوں میں استحکام کا ہدف حکومت کے 5 سے 7 فیصد کے درمیانی مدت کے افراط زر کے ہدف سے ظاہر ہوتا ہے۔

ملکی اور عالمی دونوں سطح پر ہونے والے عوامل توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں تبدیلی کی وجہ ہو سکتے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان عوامل کی پیش گوئی کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے، افراطِ زر کی پیش گوئی میں بہت سے مفروضے طے کیے جاتے ہیں اور مزید معلومات آنے کے ساتھ ہی اسے مسلسل اپ ڈیٹ کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’پاکستان میں معلومات کی کوریج اور بروقت تجدید میں بہتری کی ضرورت ہے، عارضی تخمینوں کی نسبت سالانہ جی ڈی پی نمو کے تخمینے میں اکثر بڑے پیمانے پر نظرثانی کی جاتی ہے، اور یہ سب حتمی اعداد و شمار کی عدم دستیابی اور پیچیدہ تخمینوں کے ساتھ ہورہا ہوتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ افراط زر کی پیش گوئیاں اجناس کی عالمی قیمتوں اور شرح مبادلہ کی ترقی کے نقطہ نظر پر بھی منحصر ہیں۔

مارکیٹ کی طے شدہ شرح تبادلہ کی جانب منتقل ہوتے ہوئے قیمتوں کے استحکام کو اسٹیٹ بینک کے بنیادی ہدف کے طور پر اپنانا معیشت کو شرح تبادلہ سے افراط زر کے ہدف کی جانب منتقل کرنے کے مترادف ہے جسے اقتصادی کھلاڑی اپنی توقعات اور فیصلوں کا مرکز بناتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس کے لیے اسٹیٹ بینک کو مہنگائی کا ہدف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس عہد کرنے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں