امریکا میں پہلی بار خواجہ سرا کو سزائے موت

اپ ڈیٹ 05 جنوری 2023
ایمبر میکلالن پر 2003 میں اپنی سابقہ گرل فرینڈ کو قتل کرنے کا الزام تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
ایمبر میکلالن پر 2003 میں اپنی سابقہ گرل فرینڈ کو قتل کرنے کا الزام تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکا میں قتل کا جرم ثابت ہونے پر پہلی مرتبہ کسی ٹرانسجینڈر (خواجہ سرا) کو موت کی سزا دے دی گئی۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق سرکاری محکمہ جیل کی جانب سے بیان میں بتایا گیا کہ 49 سالہ ایمبر میکلالن کو گزشتہ روز مقامی وقت شام 7 بجے سے پہلے ریاست میسوری میں ڈائیگنوسٹک اینڈ کریکشن سینٹر میں سزائے موت دی گئی۔

مقامی نیوز اسٹیشن ’فاکس ٹو ناؤ‘ کی رپورٹ کے مطابق ایمبر میکلالن کی موت زہر کا انجیکشن لگانے سے ہوئی۔

ایمبر میکلالن پھانسی کی سزا پانے والی پہلی ٹرانس جینڈر کے ساتھ ساتھ پہلی فرد ہیں جنہیں رواں سال امریکا میں سزائے موت دی گئی ہے۔

شناخت تبدیل کرنے سے پہلے ایمبر پر سال 2003 میں اپنی سابقہ گرل فرینڈ کو قتل کرنے کا الزام تھا۔

بیورلی گینتھیر جب اپنے کام سے فارغ ہوئی تو ایمبر نے اس کا پیچھا کیا تھا۔

جس روز یہ واقعہ پیش آیا، اس روز ایمبر اپنی سابقہ گرل فرینڈ بیورلی گینتھیر نامی خاتون کا انتظار کر رہی تھی، بیورلی گینتھر کو ریپ کے بعد چاقو کے وار سے قتل کیا گیا، ان کی لاش کو مسی سسپی دریا کے قریب پھینک دیا گیا تھا۔

سال 2006 میں جیوری نے ایمبر کے خلاف جرم ثابت ہونے کا اعلان کیا، لیکن ان کی سزا کے حوالے سے فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا، بعد ازاں ٹرائل جج نے مداخلت کرتے ہوئے انہیں موت کی سزا سنائی تھی، یاد رہے کہ میسوری اور انڈیایا میں اس طرح کی مداخلت کی اجازت ہوتی ہے۔

بعد ازاں ایمبر کے وکلا نے میسوری کے گورنر مائیک پارسن سے رحم کی اپیل کی تھی۔

وکلا نے جیوری کی جانب سے ایمبر کو موت کی سزا نہ سنانے کا حوالے دیتے ہوئے گورنر مائک پارسن کو ٹرانسجینڈر کی سزا کو عمر قید سزا میں تبدیل کرنے کی اپیل کی تھی۔

رحم کی اپیل میں وکلا نے کہا کہ موت کی سزا پر ابھی غور کیا جارہا ہے، ایمبر کی موت کی سزا کا فیصلہ معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ صرف ایک جج کی جانب سے سنایا گیا ہے۔

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ امیبر کا بچپن بہت مشکل مرحلے سے گزرا ہے اور انہیں ذہنی مسائل کا بھی سامنا ہے۔

گورنر کو لکھے گئے خط میں وکلا نے کہا تھا کہ ایمبر کو گود لینے والے والد انہیں ڈنڈوں سے مارتے اور ٹیزر سے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے تھے۔

خط میں انہوں نے مزید بتایا کہ ان تمام خوفناک تشدد کے باوجود ایمبر خاموشی سے اپنی جنس کے ساتھ شش و پنج کا شکار تھیں، جسے صنفی ڈسفوریا کہا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ جینڈر ڈسفوریا اس وقت ہوتا ہے جب انسان کی اندرونی صنفی شناخت ان کی جسمانی صنفی شناخت سے مطابقت نہیں رکھتی۔

پریس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایمبر نے حال ہی میں اپنی شناخت تبدیل کروائی تھی۔

سزائے موت کے انفارمیشن سینٹر، امریکا میں اس طرح کی سزاؤں کو ختم کرنے سے متعلق کام کرتا ہے، سینٹر کا کہنا تھا کہ اس سے قبل امریکا میں کسی بھی ٹرانسجینڈر کو کھلے عام سزائے موت کی سزا نہیں سنائی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں