پنجاب اسمبلی ازخود تحلیل، گورنر کا عمل میں حصہ بننے سے انکار

اپ ڈیٹ 14 جنوری 2023
وزیراعلیٰ نے 11 جنوری کو اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا—فوٹو: پنجاب اسمبلی ویب سائٹ
وزیراعلیٰ نے 11 جنوری کو اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا—فوٹو: پنجاب اسمبلی ویب سائٹ
بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ آئینی اور قانونی عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی—فائل/ فوٹو: ٹوئٹر
بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ آئینی اور قانونی عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی—فائل/ فوٹو: ٹوئٹر

پنجاب کی صوبائی اسمبلی وزیراعلیٰ کی جانب سے سمری پر دستخط کے 48 گھنٹے مکمل ہونے پر از خود تحلیل ہوگئی جبکہ گورنر بلیغ الرحمٰن نے اس عمل کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے سمری پر دستخط نہیں کیے۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے بیان میں کہا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد ایک متفقہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی اور قائدِ حزب اختلاف حمزہ شہباز کو مراسلے جاری کر دیے گئے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی اور صوبائی کابینہ آئین کے آرٹیکل 112 ون کے تحت تحلیل ہوگئی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 112 کے تحت وزیراعلیٰ کی جانب سے اسمبلی کی تحلیل کے لیے سمری گورنر کو بھیج دی جائے اور 48 گھنٹے تک گورنر سمری پر دستخط نہ کرے تو اسمبلی خود بخود تحلیل ہوجاتی ہے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ نگراں وزیراعلیٰ کی تقرری کے لیے گورنر دونوں قائدین سے مشاورت کریں گے اور گورنر نے دونوں سے 17 جنوری کو رات 10 بجے تک عہدے کے لیے ان سے نام طلب کرلیا۔

گورنر پنجاب نے کہا کہ اگر وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف ان سے ملاقات کرنا چاہیے اور تینوں کے درمیان ملاقات کرنے کی خواہش رکھتے ہوں تو وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے دستیاب ہوں گے۔

اس سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ ’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے متعلق عمل کا حصہ نہ بنوں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میں آئین اور قانون کو خود اپنا راستہ لینے کے لیے چھوڑوں گا، ایسا کرنے سے قانونی عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی کیونکہ اس حوالے سے آگے بڑھنے کے لیے آئین بالکل واضح ہے‘۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے گورنر پنجاب کے فیصلے پر شدید تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ ’پہلا موقع نہیں کہ آپ نے اپنے غیر جمہوری آقاؤں کی خوش نودی کے لیے جمہوری فیصلوں کو روندا ہو، آپ کے فیصلے آپ کے عہدے کے وقار کے منافی رہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’بہرحال 48 گھنٹوں کا وقت گزر چکا ہے اور آئین کے تحت پنجاب اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے، اب پی ڈی ایم کا سامنا میدان میں ہو گا‘۔

پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی نے گورنر بلیغ الرحمٰن کو سمری بھیج دی تھی اور گورنر نے سمری موصول ہونے کی تصدیق کی تھی۔

یاد رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے 11 جنوری کو رات گئے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد اگلے روز صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے سمری پر دستخط کردیے تھے اور سمری گورنر پنجاب کو بھیج دیا تھا۔

وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کی جانب سے گورنر پنجاب کو جاری مختصرسمری میں کہا گیا تھا کہ ’میں پرویز الہٰی، وزیراعلیٰ پنجاب، آپ کو تجویز کر رہا ہوں کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی تحلیل کردیں‘۔

چوہدری پرویز الہٰی نے اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس پر دستخط کرنے سے قبل زمان پارک لاہور میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے بھی ملاقات کی تھی۔

دوسری جانب گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے کہا تھا کہ اسمبلی عوام کا منتخب ادارہ ہے جس کو وقت سے پہلے تحلیل کرنا جمہوریت پسند انسان کے لیے مشکل ہے۔

لاہور میں ایک تقریب کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے کہا تھا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے سمری موصول ہوئی ہے جس پر دو دنوں میں فیصلہ کرنا ہے اور منظور کرتے ہی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔

گورنر نے کہا تھا کہ مجھے یہ بھی دیکھنا ہے کہ الیکشن کے لیے کون سی تاریخ دی جائے کیونکہ 90 روز میں انتخابات کرانے ہوں گے جس میں رمضان بھی ہوگا اور اگر اس سے پہلے انتخابات ہوں تو وقت بہت کم ہوگا اس لیے تمام چیزوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کو کہنا ہے کہ وہ پہلے آپس میں مل کر فیصلہ کریں اور اگر نہ کر سکیں تو پھر اگلے مراحل ہوں گے اور نگراں حکومت کا بھی نوٹی فکیشن جاری کرنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں