بلدیاتی انتخابات میں کم ٹرن آؤٹ کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

اپ ڈیٹ 16 جنوری 2023
حلوہ پوری اور آلو چنے خریدنے والوں کی قطاریں پولنگ اسٹیشنز کی نسبت زیادہ طویل تھیں—فوٹو: ڈان نیوز
حلوہ پوری اور آلو چنے خریدنے والوں کی قطاریں پولنگ اسٹیشنز کی نسبت زیادہ طویل تھیں—فوٹو: ڈان نیوز

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے دوران کراچی کے تقریباً ہر علاقے میں ووٹر ٹرن آؤٹ کم رہا، کچھ لوگوں کے مطابق اس کی وجہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے دھڑوں کا بائیکاٹ تھا جبکہ کچھ کے نزدیک اس کی وجہ سرد موسم ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم آخری لمحات میں انتخابی عمل سے دستبردار ہو گئی تھی لیکن پولنگ اسٹیشنز پر موجود کچھ لاعلم معمر افراد یہ کہتے بھی پائے گئے کہ وہ ایم کیو ایم کے لیے ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں، جب انہیں ایم کیو ایم کے بائیکاٹ سے متعلق آگاہ کیا گیا تو وہ ووٹ ڈالے بغیر واپس لوٹ گئے۔

اگرچہ زیادہ تر ووٹ ڈالنے والوں نے پاکستان پیپلز پارٹی یا پاکستان تحریک انصاف کے حامی ہونے کا دعویٰ کیا، لیکن شہر میں لگائے گئے پوسٹرز، بینرز اور جھنڈوں کی تعداد کے لحاظ سے جماعت اسلامی اور ان کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن ہی فاتح نظر آئے۔

کئی ووٹرز نے اپنے بچوں کے ہمراہ بھی پولنگ اسٹیشن کا رخ کیا، ایک ماں نے بتایا کہ ’بچوں نے اس الیکشن کے بارے میں سوالات کیے تھے کیونکہ وہ اس کے حوالے سے ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے تھے، اس لیے میں نے بہتر سمجھا کہ انہیں یہاں لاکر یہ سب عملی طور پر دکھا دوں‘۔

زیادہ تر علاقوں میں کم ٹرن آؤٹ کے علاوہ کچھ علاقے ایسے بھی تھے جہاں ووٹروں کا ناقابل یقین حد تک زیادہ ٹرن آؤٹ تھا، ان میں ضلع وسطی میں پہاڑ گنج اور ضلع کیماڑی میں سلطان آباد جیسے علاقے شامل ہیں۔

نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی، فیڈرل بی ایریا، لیاقت آباد، گلشن اقبال وغیرہ میں پولنگ اسٹیشنز سے زیادہ پٹرول پمپس، حلوہ پوری کی دکانوں اور بازاروں پر رش نظر آیا۔

عبداللہ کالج میں یوسی 20 کے کونسلر دل محمد کا نام بہت سے ووٹرز کے لبوں پر تھا، پجر گنج کے رہائشی محمد یوسف نے کہا کہ ’یہ وہی ہے جو ہمارے درد کو محسوس کرتا ہے، اس کا دل لوگوں کے لیے دھڑکتا ہے اور اس کے پاس ہمارا دل ہے‘۔

کچھ فاصلے پر پی ایس-126 میں یونین کونسل نمبر 9 یا وارڈ 4 میں ایک خاتون ووٹر نے کہا کہ وہ جماعت اسلامی کو ووٹ دینے جا رہی ہیں ہیں، انہوں نے فخر سے بتایا کہ ’میں لقمان ولی کو ووٹ دوں گی کیونکہ میں ان کی بھانجی ملیحہ عمران ولی ہوں‘۔

اسی جگہ ایک اور ووٹر سعید جلال نے بے نظیر بھٹو کی اسکارف پر لگی تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن وہ چلی گئیں، دیگر تمام سیاست دان بھی یا تو مر چکے ہیں یا آدھے مردہ ہیں، مجھے اب صرف مضبوط ترین لوگوں کو ووٹ دینے میں ہی مسائل کا حل نظر آتا ہے جو کچھ اچھا کام بھی کرنا چاہتے ہیں، میں جماعت اسلامی کو ووٹ دوں گا۔

دریں اثنا نارتھ کراچی کے علاقے شادمان کی جانب انتہائی خراب اور کچی سڑکوں پر سفر بھی بے سود ثابت ہوا کیونکہ وہاں بھی پولنگ اسٹیشن کے بجائے پٹرول پمپوں پر لوگوں کی تعداد زیادہ تھی، علاقےایک رہائشی نے کہا کہ ’ایم کیو ایم کے اس الیکشن سے دستبردار ہونے کے بعد آپ کو اور کیا امید تھی؟ یہاں کی زیادہ تر آبادی اردو بولنے والوں کی ہے‘۔

ایف بی ایریا میں دھمتھل سوئٹس پر حلوہ پوری اور آلو چنے خریدنے آنے والوں کی قطاریں پولنگ اسٹیشنوں کی نسبت زیادہ طویل تھیں۔

عائشہ منزل کے اسلامک سینٹر وارڈ 3 میں پولنگ آدھا گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوئی، جماعت اسلامی کے امیدوار اویس بیگ نے بتایا کہ ’یہاں 6 پولنگ بوتھ ہیں اور صبح 9 بجے یہاں کوئی عملہ نہیں تھا‘۔

لیاقت آباد میں لوگ ووٹ ڈالنے کے بجائے کھسے یا برتن خریدنے یا پنکھے یا واشنگ مشینوں کی مرمت کروانے میں زیادہ دلچسپی دکھاتے نظر آئے۔

اپوا گورنمنٹ اسکول فار گرلز میں پریذائیڈنگ آفیسر سید نوید نقوی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے لیے کام کرنے کے 9 سالہ تجربے میں انہوں نے اتنا کم ٹرن آؤٹ کبھی نہیں دیکھا، انہوں نے کہا کہ ’دوپہر کے ایک بجے ہیں اور خواتین کا پہلا ووٹ ابھی ڈالا گیا ہے جبکہ یہاں اب تک صرف 7 مردوں نے ووٹ ڈالا ہے‘۔

گلشن اقبال کے نفیس اور پڑھے لکھے ووٹرز اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ان کے کیا مسائل ہیں اور حل کے لیے کس کو ووٹ دینا ہے لیکن ان میں سے بہت سے ووٹ نہیں ڈال سکے کیونکہ کچھ نے سخت سردی میں اتوار کی صبح اس کام کے لیے نکلنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اگر ان میں سے کچھ نے ایسا کیا بھی تو کئی لوگ اپنے پولنگ اسٹیشنز کے بارے میں الجھن کا شکار نظر آئے اور واپس لوٹ گئے۔

ملیر کے ایک پولنگ اسٹیشن پر مسٹر اور مسز منور کو یہ پوچھتے ہوئے سنا گیا کہ ’وہ کون کون سے مسائل ہیں جن کا کراچی کو سامنا نہیں ہے، اس شہر کے لوگوں کو ایک یا دو مسائل کا سامنا نہیں ہے، نہ پانی ہے نہ بجلی اور نہ گیس، سڑکیں اتنی خراب ہیں کہ میری گاڑی کا سسپنشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کیا کسی کو پروا ہے؟ ہم کافی ناامید ہیں، لیکن پھر جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک شخص نعمت اللہ خان یاد آتا ہے جس نے اس شہر کے لیے جان دی تھی، یہی وجہ ہے کہ ہم آج یہاں ترازو پر مہر لگانے آئے ہیں‘۔

کورنگی میں قائم پولنگ اسٹیشن میں آدھا دن گزر جانے کے باوجود ووٹرز کی بہت معمولی تعداد دکھائی دی، جس کی وجہ وہاں ایم کیو ایم کے جھنڈوں کی کثرت کی صورت سمجھ آگئی۔

کیماڑی میں ٹی سی ایف نگینہ پولیس لائن کیمپس میں ایک گھرانہ 24 گھنٹے تک گیس نہ ہونے کی وجہ سے شکوہ کناں نظر آیا لیکن انہوں نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی کہ وہ کس کو ووٹ دینے جا رہے ہیں جو انہیں پریشانیوں سے نجات دلا سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں