سیاسی عدم استحکام اور پالیسی ریٹ میں اضافے کا خدشہ، اسٹاک مارکیٹ میں 602 پوائنٹس کی کمی

اپ ڈیٹ 16 جنوری 2023
پاکستان کے پاس موجود ڈالرز ایک ماہ کی اوسط درآمدات کے لیے ناکافی ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے پاس موجود ڈالرز ایک ماہ کی اوسط درآمدات کے لیے ناکافی ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے دوران حصص کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی اور کے ایس ای 100 انڈیکس 40 ہزار کی سطح سے بھی نیچے آگیا، معاشی تجزیہ کاروں نے اس کمی کی وجہ سیاسی و معاشی غیر یقینی کی صورتحال اور پالیسی ریٹ میں ممکنہ اضافے کو قرار دیا ہے۔

کے ایس ای-100 انڈیکس 602.7 پوائنٹس یا 1.49 فیصد کم ہو کر 39 ہزار 720.75 پوائنٹس پر بند ہوا جبکہ مارکیٹ کاروباری سرگرمی کے دوران دوپہر 2:08 بجے 662.2 پوائنٹس یا 1.67 فیصد تک گر گئی تھی۔

اس سے قبل دوپہر ایک بج کر 48 منٹ پر کے ایس ای-100 انڈیکس 529 پوائنٹس یا ایک فیصد کمی کے بعد 39 ہزار 795 پوائنٹس پر پہنچ گیا تھا۔

سربراہ ٹاپ لائن سیکیورٹیز محمد سہیل نے کہا کہ بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ اور ملک کے کم ہوتے غیر ملکی ذخائر سے متعلق سرمایہ کاروں کے خدشات کے باعث حصص کی قیمتیں گریں۔

چیف ایگزیکٹو فرسٹ نیشنل ایکوiٹیز لمیٹڈ علی ملک نے کہا کہ حصص کا حجم بہت کم تھا اور سیاسی و معاشی غیر یقینی کی صورتحال کی وجہ سے خریداروں نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے اس کمی کی وجہ ان امکانات کو بھی قرار دیا جن کے مطابق اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں شرح سود میں ایک سے 2 فیصد اضافہ کیا جائے گا، جس سے کمپنیوں کے منافع میں کمی آئے گی۔

سابق ڈائریکٹر پاکستان اسٹاک ایکسچینج ظفر موتی والا نے کہا کہ ’مارکیٹ میں خوف پایا جاتا ہے، یہ مستحکم نہیں ہو رہی اور اس کی بنیادی وجہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بات ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ سود کی بینچ مارک شرح میں اضافے سے بھی حصص کی قیمتوں پر منفی اثر پڑے گا۔

انہوں نے بندرگاہوں کی صورتحال کا بھی حوالہ دیا جہاں درآمدی کنٹینرز ہفتوں سے پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ اسٹیٹ بینک نے ذخائر کی شدید قلت کے پیش نظر ڈالر کے اخراج کو محدود کرنے کے لیے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی بحران مزید شدت اختیار کرگیا تو ہم مستقبل میں معیشت کو بہتر ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔

سربراہ الفا بیٹا کور خرم شہزاد نے بھی ظفر موتی والا کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ واضح صورتحال نہ ہونے کی وجہ سے مستقبل قریب میں زیادہ بہتری کے امکان دکھائی نہیں دیتے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا نواں جائزہ مکمل ہوجائے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ دکھائی دیا تو اسٹاک مارکیٹ دوبارہ مستحکم ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مارکیٹ میں رجحان بہت کمزور ہے اور سرمایہ کار اچھی قیمتوں کے باوجود جارحانہ انداز نہیں اپنا رہے‘۔

گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کی باضابطہ ایڈوائس کے بعد سیاسی غیر یقینی صورتحال کے سبب کے ایس ای-100 انڈیکس میں 684 پوائنٹس کی کمی آئی۔

ہفتہ (14 جنوری) کو پنجاب اسمبلی تحلیل ہوگئی جبکہ نگراں وزیر اعلیٰ کا تقرر ہونا ابھی باقی ہے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے بھی اعلان کردیا ہے کہ صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری 17 جنوری (کل) گورنر کو بھجوادی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ملک عام انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے اور دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں کلین سوئپ کرے گی۔

دریں اثنا اسٹیٹ بینک کے ذخائر 4 ارب 34 کروڑ ڈالر تک گرنے کے بعد ملک کی غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے جوکہ فروری 2014 کے بعد کم ترین سطح ہے۔

ملک کو ڈالر کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں خوراک اور صنعتی خام مال کی درآمدات بھی محدود ہو رہی ہیں۔

زرمبادلہ کے ذخائر کی تازہ ترین صورتحال اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ پاکستان کے پاس موجود ڈالرز ایک ماہ کی اوسط درآمدات کے لیے ناکافی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں