بندرگاہ پر پھنسے خوردنی تیل کے کنٹینر کی کلیئرنس کیلئے اسٹیٹ بینک اور وزارت صنعت میں اتفاق

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2023
وزارت نے بندرگاہ پر ایک لاکھ 75 ہزار ٹن خوردنی تیل کے 11 جہاز کی تفصیلات بھی فراہم طلب کرلیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
وزارت نے بندرگاہ پر ایک لاکھ 75 ہزار ٹن خوردنی تیل کے 11 جہاز کی تفصیلات بھی فراہم طلب کرلیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان میں گھی اور خوردنی تیل کی قلت ختم کرنے کے لیے کراچی بندرگاہ پر پھنسے 3 لاکھ 85 ہزار ٹن خوردنی تیل کے کنٹینر کی کلیئرنس کے لیے وزارتِ صنعت اور اسٹیٹ بینک کے درمیان اتفاق ہوگیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق خوردنی تیل کی صنعت کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ صنعت کو چلانے اور تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے بینک کی جانب سے نئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک اور وزارتِ صنعت کے درمیان معاملات طے پاگئے ہیں۔

پاکستان بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی وی ایم اے) نے دعویٰ کیا کہ بینک لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھول رہے اور نہ ہی دستاویزات کو ریٹائر کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں خوردنی تیل کی فی من قیمت گزشتہ ہفتے 13 ہزار سے بڑھ کر 14 ہزار ہوگئی ہے جبکہ ملز میں پام آئل کا ذخیرہ بھی ختم ہوگیا ہے۔

خوردنی تیل کے کنٹینر کراچی بندرگارہ پہنچنے میں 45 سے 60 روز لگتے ہیں جبکہ مارچ کے تیسرے ہفتے میں جب ماہِ رمضان شروع ہوگا تو گھی اور تیل کی طلب عروج پر پہنچ جائے گی، مستقبل میں اضافی طلب کو پورا کرنے کے لیے صنعتوں کو لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کی ضرورت ہے۔

قبل ازیں وزارت انڈسٹری نے پاکستان بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن سے دستاویزی تصدیق طلب کی تھی جس میں 27 دسمبر 2022 کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے خوردنی تیل کی درآمدات کو ترجیح دینے کے فیصلے کے باوجود کمرشل بینک ریٹائرمنٹ دستاویزات اور لیٹر آف کریڈٹ کو کھولنے کی درخواستیں مسترد کر رہا ہے۔

وزارت نے پاکستان بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن سے ہر کمپنی کے لیٹر آف کریڈٹ کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں جو بینک کی جانب سے ریٹائر یا کھولے نہیں گئے ۔

اس کے علاوہ پاکستان بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کراچی بندرگاہ پر کھڑے ایک لاکھ 75 ہزار ٹن خوردنی تیل کے 11 جہاز کی تفصیلات بھی فراہم کرےگا۔

کورنگی ایسوسی ایشن برائے تجارت اور صنعت (کاٹی) کے صدر فراز الرحمٰن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے چیپٹر 84، 85 اور 87 سامان کے کنٹینر 2 جنوری کو جاری کرنے کی اجازت دینے کے باوجود کنٹینر بندرگاہ پر کھڑے رہنے ہر تشویش کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا فوری نکالا جانا چاہیےکیونکہ ایک تاجر پر اگر 10 ہزار ڈالر فی کنٹینر کے مقابلے 15 ہزار ڈالر جرمانہ ہوگا تو کاروبار تباہ ہوجائے گا جس کے نتیجے میں ضروری اشیا کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔

پوٹاشیم آیوڈیٹ

سالٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایس ایم اے پی) کے چیئرمین اسمٰعیل سُتر کا کہنا ہے کہ پوٹاشیم آیوڈیٹ کے درآمدی جہاز گزشتہ 15 دنوں سے کراچی بندرگاہ پر کھڑے ہیں جس کے باعث صنعت میں نمک بنانے کے لیے ضروری اشیا ختم ہوگئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مقامی سطح پر 70 فیصد نمک کا استعمال کیا جاتا ہے، اگر ملک میں نمک کی قلت ہوئی تو عوام بنیادی غذا سے محروم ہوجائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں