• KHI: Clear 17.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 12°C
  • ISB: Partly Cloudy 12°C
  • KHI: Clear 17.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 12°C
  • ISB: Partly Cloudy 12°C

سول سوسائٹی کی ناکامیاں

شائع August 29, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

ماہرین معاشیات جانتے ہیں کہ مارکیٹ کی ناکامی (Market Failure) اور "حکومت کی ناکامی" کا مطلب کیا ہے یعنی ایک ایسی صورت حال جبکہ بحیثیت مجموعی مختلف تسلیم شدہ وجوہات کی بنا پردونوں ہی ادارے ترقی کوفروغ دینے میں ناکام ہوجائیں-

کہا جاتا ہے کہ تعاون کی غیرموجودگی، ناکافی معلومات اورعدم مساوات، ان دونوں اداروں کو متاثر کرتے ہیں- اسی نظریاتی سوچ اور عملی تجربے کی بنا پر "سول سوسائٹی" کی ضرورت محسوس ہوئی تا کہ وہ ان ناکامیوں کا حل ڈھونڈ سکے اور خود کو ترقی کے ایک متبادل ادارے کے طورپر پیش کر سکے جو ان دونوں اداروں سے بہترثابت ہو-

عام طور پر یہ فرض کیا جاتا ہے کہ عوام پر مشتمل گروپس جس میں گاؤں کی آبادیاں، شہری علاقائی کونسلیں، اسکولوں کی اَیسوسی ایشنز اور پانی استعمال کرنے والے گروپس شامل ہیں جو اجتماعی طور پر اپنے اراکین کے مشترکہ مفادات کیلئے کام کرتے ہیں جن سے سب کو فائدہ پہنچتا ہے-

سول سوسائٹی اپنی عمومی ترقیاتی سرگرمیوں میں مساوات کے اصولوں پر عمل کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں اپنی مدد آپ کرنے یا این جی اوز کی رہنمائی میں ترقیاتی کاموں کو انجام دینے کی ایک عالمی تحریک نمودار ہوتی ہے جس میں این جی اوز اور کمیونٹی تنظیموں (سی بی اوز) نے حکومت کی جگہ لے لی ہے یا پھر وہ حکومت کا کام کنٹریکٹ کی بنیاد پر انجام دیتی ہیں-

تعجب اس بات پر ہے کہ ابھی تک اس بات کے عملی شواہد بہت کم نظر آتے ہیں کہ ترقیاتی کاموں میں سول سوسائٹی کا حصّہ کتنا ہے؟ عام خیال یہ ہے کہ سول سوسائٹی اچھے کام کرتی ہے جس سے آبادیوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور یہ کہ یہ حکومت یا مارکیٹ کے اداروں کا بہتر متبادل ہے-

عالمی بینک کے دو ماہرین معاشیات نے اپنی ایک حالیہ کتاب میں لکھا ہے کہ سول سوسائٹی کےترقیاتی ماڈل کے بارے میں چند سوالات اٹھ کھرے ہوئے ہیں جو مشاہدات پر مبنی ہیں- اگرچہ کہ گزشتہ دہائی میں عالمی بینک نے مقامی ترقیاتی کاموں کیلئے پچاسی بلین ڈالر کی امداد دی جوشراکت کی بنیاد پرانجام دی جا رہی تھیں لیکن اس بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہیں کہ اس قسم کی شراکت داری کے ترقیاتی کام کتنے کامیاب ثابت ہوئے ہیں-

غزالہ منصوری جو کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اورواشنگٹن میں ان کے ساتھ کام کرنے والے وجیندرا راؤ نے تقریبا پانچ سو شراکت داری کے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا ہے اور وہ جس نتیجے پر پہنچے ہیں وہ ان لوگوں کیلئے ایک چونکا دینے والی خبر ہے جو سول سوسائٹی کے ترقیاتی سرگرمیوں کے پرجوش حامی ہیں-

سول سوسائٹی کے تعلق سے وسیع تر نظریہ کو کم از کم دو وسیع تر حصّوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے: ایک تو وہ نامیاتی تحریکیں جومختلف مقاصد کی علمبردار ہیں ( مثلا فوجی آمریت کے خاتمہ کی حامی یا 1980 کی دہائی کی سوویت پشت پناہی سے چلنے والی حکومتوں کے خاتمے کی تحریکیں، جن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر سیاسی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں) اور دوسری مصنوعی شراکت داری کے ذریعہ ترقیاتی کام کی تنظیمیں (Induced Participatory Interventions) جن کا مقصد ترقیاتی نتائج اور مقاصد حاصل کرنا ہیں- دونوں ماہرین معاشیات نے آخرالذکر کا، جن میں این جی اوز اور کمیونٹی پر مبنی تنظیمیں شامل ہیں، گہرائی سے جائزہ لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شراکت داری کی ترقیاتی سرگرمیوں کا محرک، تجزیہ سے زیادہ "وقتی شوق" ہے-

ان کا خیال ہے کہ بہت سے مسئلے ایسے ہیں جو سول سوسائٹی پر گزشتہ برسوں میں بھی اسی طرح اثرانداز ہوتے ہیں جس طرح حکومت پر یا مارکیٹ پر- ان کا خیال ہے کہ سول سوسائٹی کو بااختیار بنانا مارکیٹ پر مبنی اسٹریٹیجی سے زیادہ بہتر طریقہ نہ ہو بلکہ بیوروکریٹس کے مرکزی رول کو مضبوط بنانا شائد اس سے بھی زیادہ بہتر ثابت ہو-

خیال یہ ہے کہ گروپس ہمیشہ اجتماعی طور پر کام نہیں کرتے- ان نام نہاد کمیونٹیز میں بہت سے تضادات موجود ہوتے ہیں اور طبقہ، جنس اور رتبہ کے زیر اثر، اشرافیہ کے اختیارات بڑھ جاتے ہیں-

انکی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ سوک سرگرمیوں میں حصّہ لینے والے دولتمند، زیادہ تعلیم یافتہ اوراعلیٰ سماجی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں- ان میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے اور وہ سیاسی وابستگی رکھتے ہیں- چونکہ تمام کمیونٹیز میں اس قسم کی تقسیم پائی جاتی ہے، اس لئے مصنفین کا خیال ہے کہ مصنوعی شراکت داری کے ذریعہ کمیونٹی کی سطح پر بھی پائیدار روابط نہیں قائم ہو سکتے بلکہ موجودہ سماجی تقسیم اور بھی بڑھ جاتی ہے-

ان شراکت داری کی سرگرمیوں سےغریبوں کو کم اور خوشحال طبقوں کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے، اگرچہ کہ ان سرگرمیوں کا مقصد غربت کا خاتمہ ہے "کمیونٹی پر مبنی ترقیاتی کاموں کا اثر غربت کے خاتمہ پر محدود نظر آتا ہے"-

شراکت داری کے ذریعہ ترقیاتی کاموں کے بارے میں مفروضہ یہ ہے کہ خواہ ان کی نوعیت این جی اوز کی ہو یا غیر مرکزیت کی، ترقیاتی کاموں میں اس کے نتائج بہتر ہوتے ہیں اور یہ کہ ترقی کی سطح مساوی ہوتی ہے-

لیکن ان سرگرمیوں کے وسیع تر مطالعہ سے مصنفین ایک بار پھر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو منصوبے غیر مرکزیت کی بنیاد پر چلائے گئے ان سے خوشحال لوگوں کونسبتاً زیادہ فائدہ پہنچا بہ نسبت ان غریب کمیونٹیز کے، جن کیلئے یہ منصوبے بنائے گئے تھے- یہ بھی دیکھا گیا کہ ان نام نہاد شراکت داری ، مقامی یا غیر مرکزیت کی حامل ترقیاتی سرگرمیوں میں عورتوں اور اقلیتوں کو بہرحال نظرانداز کر دیا گیا -

اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں کہ سول سوسائٹی کی ناکامیوں کا تعلق اسی طرح اس کے ترقیاتی کام کرنے کے طریق کار سے ہے جیسا کہ حکومت اور مارکیٹ کے طریقہ کار سے- البتہ حیران کن بات یہ ہے کہ سول سوسائٹی کے کاموں کا تخمینہ لگانے میں زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیا گیا اور انھیں فروغ دینے میں ڈونرز (مالیاتی مدد دینے والی تنظیمیں)، امداد فراہم کرنے والی تنظیمیں، کمیونٹیز بلکہ خود حکومتیں بھی شامل ہیں-

اس قسم کی عدم مساوات ختم کرنے میں مارکیٹ یا سول سوسائٹی کے مقابلے میں ریاست زیادہ موثر کردار ادا کر سکتی ہے- اہم بات یہ ہے کہ ہم نے دنیا بھر میں دیکھا ہے کہ اس کیلئے ضروری نہیں کہ ریاست جمہوری طرز کی ہو-

ان مصنفین نے جو شواہد پیش کئے ہیں ان سے غالب طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ کمیونٹی پر مبنی سرگرمیوں کو ذمہ دار حکومت کے تعاون سے موثر بنایا جا سکتا ہے-


ترجمہ: سیدہ صالحہ

اکبر زیدی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025