پی ٹی آئی کے تمام 125 اراکین کے استعفے قبول نہ کرنا اسپیکر کا غیر قانونی اقدام ہے، اسد قیصر

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2023
فواد چوہدری نے کہا کہ اب تک 81 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے قبول ہوگئے ہیں
— فوٹو: ڈان نیوز
فواد چوہدری نے کہا کہ اب تک 81 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے قبول ہوگئے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد قیصر کا کہنا ہے کہ حکومت اور اسپیکر کا رویہ قابل مذمت ہے، تمام 125 استعفے ایک ساتھ منظور نہ کرنا اسپیکر کا غیر قانونی اقدام ہے، جمہوریت کے نام پر مذاق کیا جارہا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے آج پی ٹی آئی کے مزید 35 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے ہیں، کچھ روز قبل انہوں تحریک انصاف کے 34 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے تھے۔

آج پی ٹی آئی کے رہنما پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد پہنچے جہاں فواد چوہدری، اسد عمر، اسد قیصر، شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کی۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ انہوں نے کچھ روز قبل اسپیکر راجا پرویز اشرف سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو اسمبلی میں واپس آنے کا کہا تھا۔

اسد قیصر نے دعویٰ کیا کہ ملاقات کے روز اسپیکر نے کہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی رہنماؤں کو علیحدہ علیحدہ بلا کر انٹرویو کریں گے، تب ہی استعفے قبول ہوں گے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا راجا پرویز اشرف نے تمام اراکین کو بلا کر انٹرویو لیا تھا؟ کیا انہوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق کارروائی کی؟

ان کا کہنا تھا کہ تمام 125 اراکین کے استعفے ایک ساتھ منظور کرنے سے یہ لوگ بھاگ رہے ہیں، اسپیکر کا اقدام غیر قانونی ہے، جمہوریت کے نام پر مذاق کیا جارہا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، فواد چوہدری

اسی دوران پی ٹی آئی کے نائب صدر فواد چوہدری نے کہا کہ ہم مظلوم، لاچار پارلیمنٹ کے سامنے کھڑے ہیں، عمران خان کے ایک اشارے پر تمام پی ٹی آئی اراکین نے استعفے پیش کیے ہیں جس کی میں مبارکباد دیتا ہوں۔

انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کی کرسیاں چھوٹی کردی گئیں، ان کی وجہ سے پاکستان سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے، پاکستان ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہا ہے، ملک میں سری لنکا جیسے حالات کا خدشہ ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں دو صوبائی اسمبلیوں (پنجاب اور خیبرپختونخوا) اور قومی اسمبلی میں استعفے قبول کرنے کے بعد 64 فیصد پاکستان غیر نمائندہ ہے، عوام نے نئے اراکین کو منتخب کرنا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے پی ڈی ایم حکومت اور اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو گھر بھیجنا پاکستانی عوام اور اداروں کے مفاد میں ہے، اداروں کے غلط فیصلوں اور پالیسیوں کی وجہ سے ’امپورٹڈ حکومت‘ کو عوام پر مسلط کیا گیا، اداروں کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے، بند کمروں کے فیصلوں کی وجہ سے پاکستان بحران کا سامنا کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک 81 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے قبول ہوگئے ہیں۔

فواد چوہدری نے مطالبہ کیا کہ جن اراکین کے استعفے قبول نہیں ہوئے ان کے استعفے فی الفور منظور کیے جائیں اور عام انتخابات کا اعلان کیا جائے ، اداروں نے کردار ادا نہ کیا تو عوام فیصلہ کریں گے۔

کسی صورت عام انتخابات کو ملتوی کرنا برداشت نہیں کریں گے، اسد عمر

پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو جلد عام انتخابات کی جانب بڑھنے کے لیے تحریک انصاف اور عمران خان ہر آئینی اقدام بشمول اپنی حکومتوں کو توڑنے کے لیے تیار ہیں اور کرکے دکھا رہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ملک کو گہری کھائی سے نکالنے کے لیے عام انتخابات کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے، تمام اراکین قومی اسمبلی پارلیمنٹ میں آئے تھے لیکن ایوان میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سمیت تمام عملہ غائب ہے۔

اسد عمر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم استعفے دینے کے لیے آرہے ہیں لیکن حکومت اور اسپیکر خوفزدہ ہوکر چھپ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب کسی صورت عام انتخابات کو ملتوی کرنا برداشت نہیں کریں گے۔

کیسز سے جھٹکارا پانے کیلئے اسمبلی کی مدت بڑھا رہے ہیں، شاہ محمود قریشی

پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ راجا پرویز اشرف اپنی آئینی ذمہ داری سے فرار اختیار کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اسمبلی میں واپس آنے کا فیصلہ کیا انہوں نے اجلاس مؤخر کردیا، اسپیکر جو کہتے تھے اور جو کر گزرے ہیں اس میں تضاد ہے، اس کی وجہ وہ گھبراہٹ کا شکار ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب تک حکومت اپنے کیسز سے جھٹکارا نہیں پائے گی یہ لوگ اسمبلی کی مدت بڑھاتے جائیں گے، ان کے ذاتی مفادات ملک کے مفادات سے زیادہ عزیز ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ حکومت میں دراڑ پڑ چکی ہے، ان کے اپنے حلیف ناراض ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 2 اسمبلیاں (پنجاب اور خیبرپختونخوا) قربان کی ہیں، اس لیے نہیں کہ آپ اپنی من مانی کریں اور جمہوری راوایات کو روند دیں۔

انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس کوئی ایکشن پلان نہیں، سیاسی عدم استحکام ہے، معیشت ڈوب رہی ہے اور دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے، حکومت گھبراہٹ کا شکار ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں