گزشتہ تین مہینے سے منفی رجحان کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے زرمبادلہ کے ذخائر 25 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے معمولی اضافے کے بعد 4 ارب 60 کروڑ ڈالر ہوگئے، تاہم اب بھی صورتحال پریشان کن ہے کیونکہ ان ذخائر سے صرف 3 ہفتوں کی درآمدات ہوسکتی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک زرمبادلہ کے ذخائر بہتر کرنے کے لیے مارکیٹ سے ڈالر خرید رہا ہے، یہ طویل عرصے سے عام پریکٹس رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے جمعرات کو رپورٹ کیا کہ گزشتہ ہفتے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب 40 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 4 ارب 60 کروڑ ڈالر ہوگئے، آخری بار مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اکتوبر 2022 میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جب ستمبر کے 7 ارب 85 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 8 ارب 75 کروڑ ڈالر ہوگئے تھے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے 18 جنوری کو کہا تھا کہ پاکستان میں آئندہ ہفتے سے امریکی ڈالر کی آمد شروع ہوجائے گی جس سے ملک میں تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنا شروع ہوجائیں گے تاہم تاجروں اور کرنسی ماہرین نے اس پر یقین نہیں کیا تھا، کیونکہ انہوں نے جب سے چارج سنبھالا ہے قوم کو بتا رہے ہیں کہ رواں مالی سال 2023 کے آخر تک درکار 32 ارب ڈالر کی واپسی کے انتظامات ہوگئے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان کے دعووں کے برعکس زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے ہیں، 18 جنوری کو کاروباری برادری کے ساتھ ان کی بات چیت کے دوران ان کی پالیسیوں پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کا مشاہدہ کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ایکسچینج کمپنیوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے کہا ہے کہ وہ انہیں 50 ہزار ڈالر تک کے لیٹر آف کریڈٹ کی اجازت دیں لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔

کاروباری برادری نے اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا ہے کہ 5 ہزار ڈالر تک کی ایل سیز کلیئر کریں۔

مرکزی بینک نے رپورٹ کیا کہ کمرشل بینکوں کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 2 کروڑ ڈالر کم ہو کر 5 ارب 84 کروڑ ڈالر رہے، جبکہ گزشتہ ہفتے کے دوران ملک کے زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 10 ارب 43 کروڑ ڈالر رہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں