پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی ’بیک چینل ڈپلومیسی‘ نہیں ہو رہی، حنا ربانی کھر

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2023
وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر سینیٹ میں وقفہ سوال کے دوران اظہار خیال کر رہی تھیں—فوٹو:ڈانیوز
وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر سینیٹ میں وقفہ سوال کے دوران اظہار خیال کر رہی تھیں—فوٹو:ڈانیوز

وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ جب سے موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بیک چینل ڈپلومیسی نہیں چل رہی ہے۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا جہاں وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے کہا کہ گزشتہ 4 برسوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بھارتی اشتعال انگیز اقدامات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات محدود ہیں جب کہ عوام کا عوام سے رابطہ بھی کم سے کم سطح پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مشکلات کے باوجود گزشتہ 4 سالوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان 2 معاہدوں پر دستخط ہوئے، پاکستان نے 24 اکتوبر 2019 کو کرتار پور راہداری کھولنے کے لیے بھارت کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔

انہوں نے کہا کہ بغیر ویزا فیس کے 5 ہزار زائرین یومیہ کرتارپور راہداری کی زیارت کرتے ہیں، ایل او سی جنگ بندی کی مفاہمت پر ڈی جی ایم اوز نے فروری 2021 میں دستخط کیے، مفاہمت کا اعلان پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز نے مشاورت کے بعد مشترکہ بیان کے ذریعے 25 فروری 2021 کو کیا۔

وزیر مملکت نے کہا کہ اس سے قبل 2003 میں جنگ بندی پر مفاہمت ہوئی تھی، اس مفاہمت کی بھارت نے 13 ہزار 500 بار خلاف ورزی کی، بھارتی خلاف ورزیوں کے نتیجے می٘ 310 شہری ہلاک اور 1600 زخمی ہوئے۔

ہنگول میں مندر کو مذہبی سیاحت کا درجہ دینے کا مطالبہ

اس دوران سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ ہنگول میں ہندوؤں کا 5 ہزار سال پرانا مندر ہے، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس مندر کا پجاری ہے، اس مندر کو بھی مذہبی سیاحت کا درجہ دیا جائے جس پر حنا ربانی کھر نے کہا کہ کرتارپور راہدری کو سابق حکومت نے بنایا، اس منصوبے کو اس سے پہلے کی حکومت نے شروع کیا تھا۔

حنا ربا کھر نے کہا کہ امن اور مذہبی سیاحت کو آگے بڑھانے میں پاکستان انتظار نہیں کرتا بلکہ پہل کرتا ہے، ابھی سرحد پار سے دشمنی ایک منفرد طرز کی ہے جو سرحد پار حکومت کے باعث ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب ’بی بی سی‘ کی دستاویزی فلم سے دنیا کو وہ سب آشکار ہوا جو ہمارا مؤقف تھا، اس کے باوجود ہم امن کے راستے پر ہیں، پاکستان نے اپنی تاریخ سے سبق سیکھا لیکن اس علاقے کے بعض ممالک نے نہیں سیکھا۔

اس دوران سینیٹر فیصل جاوید نے سوال اٹھایا کہ بھارت کے 5 اگست کے اقدام کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ بھارت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، کیا موجودہ حکومت اس پوزیشن سے پیچھے ہٹ گئی ہے؟

’بیک ڈور ڈپلومسی نتیجہ خیز ہو تو ضرور ہونی چاہیے‘

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد کشمیر کا معاملہ اجاگر نہیں ہوا جس پر جواب دیتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ یہ جس معاہدے کی بات ہے یہ آپ کی حکومت کے دور میں 2021 میں ہوا، پاکستان نہیں چاہے گا کہ کہیں بھی لاشیں گریں، ایل او سی پر واقعات کم ہوئے ہیں، ہم کوشش کرتے ہیں کہ ایل او سی سمیت تمام سرحدیں پرامن رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی چیزیں ریاست کے مفاد میں ہیں، ہم نہیں سمجھتے کہ اس خطے کے مفاد میں ہے کہ لاشیں گریں، خون بہتا رہے، ہم ایسا ریلیف ہر روز دیں گے جس سے ملک کے لوگ شہید ہونا بند ہوں، ہم ایسی چیز کا دفاع کر رہے ہیں جو سابق حکومت نے کیا، میں ہر اس چیز کے خلاف کھڑی ہوں گی جو ریاست پاکستان کے مفاد کے خلاف ہو۔

وزیر مملکت برائے خارجہ نے کہا کہ یہ دونوں معاہدے سابق حکومت نے کیے تھے، سابقہ دور حکومت میں بیک ڈور ڈپلومیسی ہو رہی تھی، اس وقت بھارت کے ساتھ کوئی بیک ڈور ڈپلومیسی نہیں، بیک ڈور ڈپلومسی نتیجہ خیز ہو تو ضرور ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارت پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی، دنیا میں لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ امن کے راستے پر کیوں نہیں چلتے، یہ ملک کی سیاسی قیادت کا کام ہے، اگر سرحد پار کوئی ایسا وزیر اعظم ہو جو کہے کہ ہم نے ایٹمی اثاثے دیوالی کے لیے نہیں رکھے تو آپ کیا کریں گے؟

خیال رہے کہ حنا ربانی کھر کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ روز بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے، جس سے ممکنہ طور پر دو جوہری حریف ممالک کے درمیان برف پگھلنے میں مدد ملے گی۔

بھارت کی جانب سے اس دعوت نامے سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر سمیت تمام حل طلب مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ بات چیت کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک ماہ قبل وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی جانب سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ’گجرات کا قصائی‘ کہنے پر ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کارکنان نے احتجاج کیا تھا جبکہ بھارت نے بلاول بھٹو کے بیان کو ’غیر مہذب‘ قرار دیا تھا۔

یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت 1947 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے 3 جنگیں لڑچکے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ کا گاڑیوں پر جھنڈا لگانے کے معاملے پر رولنگ دینے کا فیصلہ

ایوان بالا کے اجلاس کے دوران وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، مشیر، معاونین خصوصی کی جانب سے گاڑیوں پر جھنڈا لگانے کے معاملے پر چیئرمین سینیٹ نے رولنگ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔

چیئرمین سینیٹ نے گاڑیوں پر جھنڈا لگانے کے معاملے پر ہدایت دی کہ بتایا جائے کہ گاڑیوں پر کون جھنڈا لگا سکتا ہے اور کون نہیں۔

فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹر فاروق نائیک نے کہا کہ وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، مشیر معاونین خصوصی کی جانب سے گاڑیوں پر جھنڈا لگایا جاتا ہے، ایک رولنگ دیں اور بتائیں کہ کون جھنڈا لگا سکتا ہے اور کون نہیں، اس پر رولنگ دیں یہ پاکستان کے جھنڈے کے احترام کی بات ہے۔

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ محمد خان جونیجو نے 1985 میں جھنڈا لگانے کی اجازت دی، بعد میں میں نے پارلیمان میں بیٹھنے والے وزرائے مملکت اور مشیروں کو جھنڈا لگانے کی اجازت دی۔

انہوں نے کہا کہ بعض اشخاص کو وزیر مملکت کا اسٹیٹس دیا گیا ہے، اس اسٹیٹس کے ساتھ وہ اشخاص گاڑیوں پر جھنڈا لگا سکتے ہیں، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ اسٹیٹس دیں اور وہ نہ لگائیں یا پھر وہ اسٹیٹس آپ کو واپس لینا پڑے گا۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ میں اس معاملے پر رولنگ دوں گا، رولز اور آئین کو سامنے رکھتے ہوئے رولنگ دوں گا۔

تبصرے (0) بند ہیں