گورنر خیبرپختونخوا نے انتخابات کو امن و امان کی بہتری سے جوڑ دیا

اپ ڈیٹ 28 جنوری 2023
غلام علی نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ صاف اور شفاف انتخابات ہوں — فائل فوٹو: فیس بُک
غلام علی نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ صاف اور شفاف انتخابات ہوں — فائل فوٹو: فیس بُک

خیبرپختونخوا کے انتخابات میں ممکنہ تاخیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گورنر غلام علی نے نئے انتخابات کو کو صوبے کی سیکیورٹی اور معاشی صورتحال میں بہتری سے جوڑ دیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق صحافیوں سے بات کرتے ہوئے غلام علی نے کہا کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کے بجائے ملکی معاشی اور سیکیورٹی مسائل کا حل تلاش کرنے پر توجہ دیں۔

قبائلی علاقوں میں دہشت گرد حملے کا حوالہ دیتے ہوئے گورنر خیبرپختونخوا نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرستان، بنوں، لکی مروت میں کیا الیکشن مہم ہوسکے گی؟

انہوں نے سوال کیا کہ اگر ایک صوبہ پہلے مردم شماری کرانے کا مطالبہ کرے اور انٹیلی جنس اداروں نے انتخابات مؤخر کرنے کی تجویز دیں تو انتخابات کیسے ہوں گے؟

غلام علی نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ صاف اور شفاف انتخابات ہوں لیکن ان کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ انتخابات کروائیں یا اس میں تاخیر کریں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ادارے، انٹیلی جنس ادارے، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گی کہ انتخابات کب ہوں گے۔

نجی نیوز چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے گورنر خیبرپختونخوا نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے 400 بزرگوں نے درخواست کی ہے کہ تین سے چار ماہ بعد انتخابات کروانے چاہئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی بزرگوں نے انتخابات سے قبل نئی مردم شماری کا مطالبہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ جب کسی صوبے میں اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگراں حکومت قائم ہوتی ہے تو آئین کے آرٹیکل 105 (3) کے ساتھ پڑھے جانے والے آرٹیکل 224 اور 224 (اے) کے تحت اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر گورنر کو انتخابات کی تاریخ دینا لازمی ہوجاتا ہے۔

غلام علی کا بیان اس وقت سامنے آیا جب پی ٹی آئی کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے پر دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔

جیو نیوز کے مطابق گورنر خیبرپختونخوا نے کہا کہ صوبائی انتخابات سے قبل امن و امان کے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔

غلام علی نے مزید کہا کہ صوبے بھر سے صنعتکاروں نے رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مالی، صنعتی اور دیگر متعلقہ مسائل کا حل چاہتے ہیں۔

نگران کابینہ کے مسئلے پر تحریک انصاف کے تحفظات سے متعلق سوال پر گورنر خیبرپختونخوا نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ حکومت کو اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق خبردار کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے گزشتہ صوبائی حکومت کو بار بار کہا تھا کہ اسمبلی تحلیل نہ کی جائے۔‘

قبل ازیں 25 جنوری کو الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ کی تجویز دیتے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومت سے رابطہ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے تجویز دی تھی کہ پنجاب میں 9 اپریل سے 13 اپریل کے درمیان اور خیبرپختونخوا میں 15 سے 17 اپریل کے درمیان کروائے جائیں۔

’پنجاب میں انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں‘

پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن رضا نقوی نے گزشتہ روز کہا تھا کہ حکومت صوبے میں صاف اور شفاف انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے۔

گورنر بلیغ الرحمٰن کے ساتھ ملاقات کے دوران محسن رضا نقوی نے کہا تھا کہ صوبائی انتظامیہ اپنی ذمہ داری غیر جانبداری سے ادا کرے گی اور الیکشن کمیشن کے فریم ورک کے تحت آئینی کردار ادا کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ امن و امان حکومت کی ترجیح ہے اور اس سے متعلق پولیس کو ہدایات جاری کردی ہیں۔

پنجاب کی صوبائی اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی لیکن گورنر نے ابھی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں کیا۔

گورنر بلیغ الرحمٰن نے اب تک تاریخ کا اعلان نہ کرنے کی وجہ نہیں بتائی لیکن انہوں نے کہا کہ آئینی عمل کی پیروی کی جائے گی۔

گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ قانون پر عمل کرنا میری ترجیح ہے، آئینی عمل پر پیروی کی جارہی ہے، اب تک آئین کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

اس کے علاوہ صدر عارف علوی نے پنجاب اور خیرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے خلاف وفاقی حکومت کو خبردار کیا تھا۔

صدر مملکت نے کہا تھا کہ آئین کے تحت انتخابات مؤخر کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، حکومت اور متعلقہ ادارے یقین دہانی کرائیں کہ دونوں صوبوں میں انتخابات آئین کے فریم ورک کے تحت ہوں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ محسن رضا نقوی کو الیکشن کمیشن کی جانب سے لگایا گیا ہے تاکہ پنجاب میں 90 روز کے اندر انتخابات نہ ہوسکیں ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں