مقبول اداکارہ سجل علی کے شائقین کے لیے خوشخبری ہے کہ وہ جلد ہی اپنی پسندیدہ اداکارہ کو اردو کے شہرہ آفاق ناول ’امراؤ جان ادا‘ پر بننے والی ویب سیریز میں دیکھ پائیں گے۔

جی ہاں، سجل علی جلد ہی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی کمپنی کی جانب سے تیار کی جانے والی ویب سیریز میں کردار ادا کرتی دکھائی دیں گی۔

شوبز ویب سائٹ ’ورائٹی‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ’امراؤ جان ادا‘ پر بنائی جانے والی ویب سیریز کو حامد حسین اور محمد یقوب پروڈیوس کریں گے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’امراؤ جان ادا‘ پر بنائی جانے والی ویب سیریز کو ناول کے عین مطابق تیار کیا جائے گا اور اس میں ناول کے مکالمے بھی شامل کیے جائیں گے۔

رپورٹ کے مطابق سیریز میں مرکزی کردار سجل علی ادا کرتی دکھائی دیں گی، تاہم ان کے ساتھ ایک اور اداکارہ کو بھی لیڈ کردار کے لیے کاسٹ کیا جائے گا، تاہم فی الحال دوسری اداکارہ کو کاسٹ نہیں کیا جا سکا۔

ویب سیریز میں پاکستان کے دیگر معروف اداکار بھی دکھائی دیں گے جب کہ اس میں بھارتی اداکاروں کو بھی کاسٹ کیے جانے کا امکان ہے۔

یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ’امراؤ جان ادا‘ کو کب تک ریلیز کیا جائے گا، تاہم امکان ہے کہ اسے آئندہ سال کے آغاز تک پیش کردیا جائے گا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہوگا کہ ’امراؤ جان ادا‘ پر کوئی ویب سیریز بنائی جا رہی ہو، اس سے قبل پاکستان اور بھارت میں مذکورہ شہرہ آفاق ناول پر متعدد ڈرامے اور فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔

’امراؤ جان ادا‘ پر تقسیم ہند کے فوری بعد فلمیں بنانے کا آغاز ہوا، تاہم پاکستان میں 1972 میں اسی نام سے ہی فلم بنائی گئی، جس نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی، جس کے بعد 1981 میں ناول کے نام پر ہی بھارت میں فلم بنائی گئی، جس میں ریکھا نے مرکزی کردار ادا کیا۔

بعد ازاں 2006 میں بولی وڈ میں ’امراؤ جان‘ کے نام سے بھی فلم بنائی گئی، جس میں ایشوریا رائے نے مرکزی کردار ادا کیا۔

’امراؤ جان ادا‘ نامی ناول 1899 میں شائع ہوا، جسے مرزا ہادی رسوا نے لکھا تھا اور انہیں اس ناول نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔

ناول میں اسی دور کے ہندوستان اور خصوصی طور پر لکھنؤ شہر کی تہذیب، روایات اور ثقافت کو اچھے طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔

ناول کی کہانی ایک طوائف کے گرد گھومتی ہے، جسے ناول میں اتنا دلکش اور حسین بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ لگتا ہے کہ وہ کہانی سچی ہوگی۔

ادب سے وابستہ افراد کہتےہیں کہ ناول افسانوی کہانی پر مبنی تھا، حقیقت میں کوئی ایسی طوائف نہیں تھی لیکن لکھاری نے کہانی کا اس انداز میں بیان کیا کہ لوگ امراؤ جان کو لکھنؤ کے چوک کے علاقے میں ڈھونڈنے آتے تھے۔

ناول میں یہ دکھانے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ اس وقت طوائفوں کے کوٹھے تہذیب و تربیت کی آماجگاہ ہوا کرتے تھے جہاں شرفا کے بچے تربیت کے لئے آتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں