گزشتہ چند دنوں کے دوران امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے نے اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر منفی اثرات مرتب کرنے کے علاوہ زندگی گزارنے کی لاگت بھی بڑھانا شروع کر دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رمضان کا مہینہ آنے والا ہے، اسٹیک ہولڈرز کو خدشہ ہے کہ اگر روپے کی قدر میں کمی اور ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو درآمدی اشیا اور خام مال کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔

سویا سپریم کے چیف ایگزیکٹیو احمد غلام حسین نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 14 فیصد تنزلی ہوئی اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 35 روپے بڑھنے سے ٹرانسپورٹیشن کی لاگت میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے گھی/کوکنگ آئل کی فی کلوگرام / لیٹر لاگت میں 50 سے 60 روپے کا اضافہ ہوا ہے، اس میں بجلی اور گیس کی لاگت اور پیکیجنگ کی لاگت میں 50 فیصد اضافے کے اثرات شامل نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تاجروں کے پاس ابھی پرانا اسٹاک ہے، یہ اضافہ آنے والے چند ہفتوں میں نظر آئے گا، ایل سیز 230 روپے کے مقابلے میں 270 روپے پر ریٹائر ہو رہی ہیں۔

احمد غلام حسین نے کہا کہ خوردنی تیل کی زیادہ قیمتیں کھپت کو کم کر دیں گی کیونکہ بہت سے گھرانوں کی استطاعت محدود ہے۔

پاکستان بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی وی ایم اے) کے سابق چیئرمین امجد رشید نے بتایا کہ آج (منگل) اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین کے ساتھ اجلاس طے ہے جس میں بندرگاہ سے پام آئل کی کلیئرنس سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پی وی ایم اے کا وفد ایل سیز کو ریٹائر کرنے اور نئی کھولنے میں حائل رکاوٹوں کا مسئلہ بھی اٹھائے گا۔

امجد رشید کا کہنا تھا کہ تقریباً 4 لاکھ ٹن پام آئل کسٹمز بانڈڈ گوداموں میں ہے جبکہ 2 لاکھ ٹن بندرگاہ پر موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پام آئل کی محدود کلیئرنس کی وجہ سے مارکیٹ میں مقامی پام آئل کی قیمتیں 11 سے 12 ہزار روپے سے بڑھ کر 16 ہزار سے 17 ہزار روپے فی 40 کلو گرام تک پہنچ گئی ہیں۔

امجد رشید کا مزید کہنا تھا کہ ہم ڈپٹی گورنر کے ساتھ مارچ کے تیسرے ہفتے سے شروع ہونے والے رمضان میں تیل/گھی کی کسی بھی سنگین قلت پر قابو پانے کے حوالے سے خوردنی تیل کی کلیئرنس کی راہ ہموار کرنے کے لیے مختلف اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔

کراچی ریٹیلر گروسر گروپ کے جنرل سیکریٹری فرید قریشی نے بتایا کہ ہول سیل قیمتوں میں اضافے کے بعد دال کی خوردہ قیمتیں بھی 20 سے 25 روپے فی کلو بڑھ چکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہول سیلرز نے خبردار کیا ہے کہ یہ صرف شروعات ہے، جب بندرگاہ سے کنٹینر کی کلیئرنس کے بعد دالوں کی مارکیٹ میں فروخت شروع ہوگی تو قیمتوں میں اضافہ صارفین کے لیے کسی صدمے سے کم نہ ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ چنے کی دال 20 سے 25 روپے فی کلو اضافے کے بعد معیار کے حساب سے 240 سے 275 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے، اسی طرح مونگ کی دال 280 سے 300 روپے، ماش کی دال 400 سے 450 روپے اور مسور کی دال 280 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر قیمتوں پر دباؤ برقرار رہا تو رمضان المبارک کے دوران خوراک کے بحران جیسی صورتحال جنم لے سکتی ہے کیونکہ مقدس مہینے میں چنے کی دال کی طلب عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ ہو جاتی ہے۔

پاکستان ٹی ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین اور ایف پی سی سی آئی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن محمد شعیب پراچہ نے کہا کہ روپے کی قدر میں گراوٹ نے درآمد شدہ چائے کی لاگت میں 100 روپے فی کلو سے زیادہ کا اضافہ کر دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں