کراچی: ریپ کیس میں عدالت سے باہر تصفیے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، سیشن جج

04 فروری 2023
جج نے دونوں فریقین کے حتمی دلائل اور شواہد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
جج نے دونوں فریقین کے حتمی دلائل اور شواہد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

کراچی کی سیشن عدالت نے قرار دیا ہے کہ ریپ کیس میں فریقین کے درمیان ’عدالت سے باہر تصفیے‘ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیوں کہ یہ جرم ناقابل معافی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے یہ حکم ایک 24 سالہ ریپ متاثرہ فریق کے والد اور ملزم کے درمیان عدالت سے باہر ہوئے تصفیے کو مسترد کرتے ہوئے دیا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (سینٹرل) زبیحہ خٹک نے یہ ریمارکس 5 سال پرانے ریپ مقدمے میں محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے دیے۔

قبل ازیں جج نے دونوں فریقین کے حتمی دلائل اور شواہد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

جج نے سال 2017 میں حیدری مارکیٹ تھانے کی حدود میں ایک نوجوان اسکول ٹیچر کو ریپ کرنے پر ملزم فرید احمد کو 10 سال قید کی سزا سنائی۔

اپنے فیصلے میں انہوں نے لکھا کہ ’آج کل گھناؤنے جرائم معاشرے میں عروج پر ہیں جن کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے کیوں کہ اس سے معاشرے میں بالخصوص لڑکیوں کے خلاف افرا تفری پھیلتی ہے‘۔

عدالت نے کہا کہ تاہم متاثرہ لڑکی کے اغوا کا الزام ملزم کے خلاف ثابت نہیں ہوا اور اس سلسلسے میں استغاثہ کے پیش کردہ ثبوت مشکوک ہیں۔

سرکاری وکیل حنا ناز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم نے متاثرہ لڑکی کو 21 مارچ 2017 کو نارتھ ناظم آباد کے علاقے سے اٹھایا اور نشہ آور چیز دے کر خیر محمد گوٹھ میں ایک خالی مکان میں لے گیا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے متاثرہ لڑکی کو بازیاب کرائے جانے تک ملزم 2 ہفتوں تک اسے ریپ کا نشانہ بناتا رہا۔

تصفیہ مسترد

عدالت نے متاثرہ لڑکی کے والد کی جانب سے بیانِ حلفی کے ساتھ جمع کرائی گئی درخواست کو مسترد کردیا۔

عدالت نے کہا کہ یہاں یہ بات مدِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ شکایت گزار نے عدالت کے سامنے بیانِ حلفی کے متن سے اتفاق کیا کہ لیکن متاثرہ لڑکی کو اس کے حق میں بیان دینے کے لیے عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔

عدالت نے تصفیے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مزید کہا کہ تاہم جرم ناقابل معافی ہے اس لیے قانون کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

جج نے مزید کہا کہ متاثرہ لڑکی کے میڈیکل سرٹیفکیٹ میں عباسی شہید ہسپتال کی ویمن میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر روحینہ نے لکھا تھا کہ لڑکی کے بیان کے مطابق وہ اپنی مرضی سے ملزم کے ساتھ گئی تھی۔

ڈاکٹر روحینہ نے میڈیکل سرٹیفکیٹ میں اس قسم کے ریمارکس لکھنے کا اعتراف عدالت کے سامنے بھی کیا تھا۔

جج نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’خدا جانے کہ انہوں نے یہ جملہ میڈیکل سرٹیفکیٹ کے ’تشدد کے نشانات‘ کے خانے میں کیوں لکھا۔

تاہم عدالت نے ڈاکٹر کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا حکم نہیں دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں