عراق میں باپ نے اپنی 22 سالہ بیٹی طِیبہ العلی کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جس کے بعد دارالحکومت میں مظاہرین نے احتجاج کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ واقعہ 31 جنوری کو عراق کے صوبے دیوانیہ میں پیش آیا جب باپ نے اپنی بیٹی 22 سالہ یوٹیوبر طِیبہ العلی کو قتل کردیا۔

وزارت داخلہ کے ترجمان سعد مان نے ٹوئٹ کرتے لکھا کہ واقعے سے قبل پولیس نے طِیبہ العلی اور اس کے رشتہ داروں کے درمیان ثالثی کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ خاندانی تنازع کو حل کیا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ طیبہ العلی ترکیہ میں مقیم تھیں اور حال ہی میں وہ عراق آئی تھیں۔

وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ طِیبہ العلی اور ان کے والد کے درمیان ہونے والی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ طیبہ کے والد ان کے ترکیہ میں تنہا رہنے پر ناخوش تھے۔

رپورٹ کے مطابق والد اور بیٹی کے درمیان ہونے والی فون ریکارڈنگ طیبہ کے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی، تاہم اے ایف پی نے آزادانہ طور پر ریکارڈنگ کی تصدیق نہیں کی۔

مبینہ ریکارڈنگ میں لڑکی نے اپنے بھائی پر بھی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔

وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ والد نے اپنی بیٹی کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا ہے، تاہم انہوں نے تنازع کی نوعیت کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

طیبہ نے یوٹیوب اکاؤنٹ بنایا ہوا تھا جس میں وہ اپنی روز مرہ کی زندگی کی ویڈیوز بنا کر پوسٹ کرتی تھی، ان ویڈیوز میں طیبہ کا منگیتر بھی اکثر نظر آتا تھا۔

پولیس ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ یہ خاندانی تنازع سنہ 2015 سے چلا آرہا ہے۔

پولیس ذرائع نے بتایا کہ طیبہ سنہ 2017 میں اپنی فیملی کے ساتھ ترکیہ روانہ ہوئی تھی لیکن اس نے عراق واپس آنے سے انکار کردیا تھا، اور ترکیہ میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق عراق میں گھریلو تشدد کو قانون کی نظر میں جرم قرار نہیں دیا جاتا۔

عراق میں گھریلو تشدد کے قانون کا مسودہ پہلی بار 2014 میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا، لیکن قانون سازوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر سیاسی مخالفت کے باعث اس قانون میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔

طیبہ کی موت کے بعد عراق میں غم و غصہ پھیل گیا ہے جبکہ دارالحکومت میں بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا گیا جہاں مظاہرین نے طیبہ کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔

انسانی حقوق کی کارکن ہانا ایڈوار نے بتایا کہ نوجوان لڑکی کی ریکارڈنگ سے معلوم ہوتا ہے کہ طیبہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی کیونکہ ریکارڈنگ میں لڑکی نے اپنے بھائی پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔

دوسری جانب عراق کے انسانی حقوق کے ادارے نے بھی یہی الزام عائد کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 22 سالہ یوٹیوبر طیبہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عراق کے قانون غیرت کے نام پر قتل، تشدد جیسے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کی سزاؤں میں بہت نرمی کی گئی ہے

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈپٹی ڈائریکٹر آیا مجذوب نے کہا کہ جب تک عراق اپنے قوانین میں خواتین اور لڑکیوں کو تحفظ فراہم نہیں کریں گے اور مجرموں کو سخت سزا کا مرتکب نہیں کریں گے تب تک اسی طرح کے سنگین جرائم ہوتے رہیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں