عدالت کا صحافیوں کے حقوق کیلئے قانون سازی میں تاخیر پر وزارت قانون و اطلاعات پر اظہارِ برہمی

اپ ڈیٹ 07 فروری 2023
جج نے کہا کہ حکومت اگلی تاریخ تک کوئی ٹھوس حل نکالے ورنہ فیصلہ دے دوں گا — فائل فوٹو: آئی ایچ سی ویب سائٹ
جج نے کہا کہ حکومت اگلی تاریخ تک کوئی ٹھوس حل نکالے ورنہ فیصلہ دے دوں گا — فائل فوٹو: آئی ایچ سی ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں کے حقوق کے لیے قانون سازی میں تاخیر پر وزارت قانون اور اطلاعات کی سستی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی جی اے) کی درخواستوں پر سماعت کی۔

انہوں نے سیکریٹری اطلاعات شاہیرہ شاہد سے الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے لیے قانون کا مسودہ تیار کرنے کے لیے گزشتہ سماعت کے دوران جاری ہدایت پر پیش رفت سے متعلق استفسار کیا۔

شاہیرہ شاہد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ الیکٹرانک میڈیا ورکرز سے متعلق معاملات پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ایکٹ کے تحت نمٹائے جاتے ہیں، تاہم وہ پی ایف یو جے اور آئی ایچ سی جے اے کی زیر التوا درخواستوں سے واقف نہیں ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے اپنے ریمارکس میں نشاندہی کی کہ درخواستیں 2021 سے زیر التوا ہیں اور وزارت اطلاعات کو ان کا علم تک نہیں ہے۔

عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ چیئرمین امپلیمنٹیشن ٹریبونل آف نیوز پیپرز ایمپلائز (آئی ٹی این ای) شاہد محمود کھوکھر نے پہلے ہی الیکٹرانک میڈیا ورکرز کے اسٹرکچر کی تشکیل کے لیے قانون کا مسودہ تیار کر رکھا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل عادل عزیز قاضی اور بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے تحریری تجاویز وزارت اطلاعات کو جمع کرادی ہیں۔

سیکریٹری قانون نے عدالت کو بتایا کہ انہیں چیئرمین آئی ٹی این ای کی جانب سے مسودہ موصول ہوا اور وزارت قانون نے انہیں اسے وزارت اطلاعات کے ذریعے بھیجنے کا مشورہ دیا۔

عدالت نے دونوں وزارتوں کو ہدایت کی کہ وہ حقیقی اسٹیک ہولڈرز (یعنی صحافیوں)کے مفادات کا تحفظ کریں اور جمعہ (17 فروری) تک مناسب کارروائی کریں۔

جج نے کہا کہ حکومت اگلی تاریخ تک کوئی ٹھوس حل نکالے ورنہ فیصلہ دے دوں گا۔

تبصرے (0) بند ہیں