درآمدات پر پابندی سے کاروباری برادری شدید پریشانی میں مبتلا ہے، تاجر رہنما

اپ ڈیٹ 14 فروری 2023
ماہر معاشیات ناصر اقبال نے کہا درآمدات پر پابندی جیسے کہ اس وقت نافذ ہے کبھی بھی پائیدار حل نہیں ہو سکتا — فائل فوٹو: شٹراسٹاک
ماہر معاشیات ناصر اقبال نے کہا درآمدات پر پابندی جیسے کہ اس وقت نافذ ہے کبھی بھی پائیدار حل نہیں ہو سکتا — فائل فوٹو: شٹراسٹاک

ملک میں کاروباری سربراہان مالی بحران کا شکار حکومت سے کراچی بندرگاہ پر پھنسے مینوفیکچرنگ میٹریل کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور خبردار کر رہے ہیں کہ درآمدات پر پابندی نہ ہٹائی گئی تو لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق امریکی ڈالر کے انتہائی کم ذخائر کا سامنا کرتے ہوئے حکومت نے اس وقت تک کے لیے تمام خوراک اور ادویات کی ضروری درآمدات پر پابندی عائد کردی ہے جب تک کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ناگزیر بیل آؤٹ پروگرام پر اتفاق نہیں ہو جاتا۔

اسٹیل، ٹیکسٹائل اور فارماسیوٹیکل جیسی صنعتیں بمشکل کام کر رہی ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اسٹیل انڈسٹری نے اسکریپ میٹل جسے پگھلا کر اسٹیل بارز میں تبدیل کیا جاتا ہے کی کمی کی وجہ سے سپلائی چین کے شدید مسائل سے خبردار کیا، گزشتہ چند ہفتوں میں اسٹیل کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہیں۔

پاکستان کی لارج اسکیل اسٹیل پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے سربراہ واجد بخاری نے کہا کہ ہم تعمیراتی صنعت کو براہ راست مواد فراہم کرتے ہیں، یہ شعبہ تقریباً 45 مین اسٹریم صنعتوں سے منسلک ہے، یہ تمام سائیکل ملک کو منجمد کرنے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹاک ختم ہونے کے بعد چھوٹی فیکٹریاں پہلے ہی بند ہو چکی ہیں جب کہ کچھ بڑے پلانٹس بند ہونے میں چند روز ہی باقی ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر صرف 2 ارب 90 کروڑ ڈالر تک آگئے ہیں جو کہ تین ہفتوں سے بھی کم درآمدات کے لیے کافی ہیں۔

کنسٹرکٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے اسٹیل اور مشینری کو درآمدی پابندی سے مستثنیٰ قرار دینے کے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ صورتحال سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ تعمیراتی صنعت بہت جلد بند ہو جائے گی، جس سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو جائیں گے۔

برسوں کی مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا، توانائی کے عالمی بحران اور تباہ کن سیلاب کی وجہ سے جس کے دوران ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا تھا اس نے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔

خام مال کی کمی کے ساتھ بڑھتی مہنگائی، ایندھن کی بڑھتی قیمتوں اور روپے کی گرتی قدر نے مینوفیکچرنگ صنعتوں کو نقصان پہنچایا۔

آئی ایم ایف کا ایک وفد جمعے کے روز پاکستان سے روانہ ہوا اور قرض پروگرام بحالی کے لیے جاری مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے ختم ہو گئے جس کے باعث کاروباری رہنماؤں کے لیے بے یقینی کی صورتحال برقرار رہی۔

تقریباً 15 کروڑ ڈالر ماہانہ کے درآمدی بل کے ساتھ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا کہنا ہے کہ اس کے کام سے براہ راست اور بالواسطہ طور پر کئی لاکھ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی صنعت پاکستان کی تقریباً 60 فیصد برآمدات کرتی ہے اور دنیا بھر کے بڑے برانڈز کے لیے تولیہ، انڈرویئر اور لینن جیسی اشیا تیار کرنے والی یہ صنعت قریباً 3 کروڑ 50 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل شاہد ستار نے کہا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو ترجیح دی جانی چاہیے، انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم ملک کی برآمدات کی بنیاد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کم و بیش معطل ہو چکی ہے، ہمارے پاس اپنی ملیں چلانے کے لیے خام مال نہیں ہے۔

تقریباً 30 فیصد ٹیکسٹائل ملوں نے کام مکمل طور پر بند کر دیا ہے جب کہ باقی چلنے والی فیکٹریاں 40 فیصد سے بھی کم صلاحیت پر کام کر رہی ہیں۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سربراہ توقیر الحق نے کہا کہ اہم اجزا کی کمی کی وجہ سے 40 ادویات کی فیکٹریاں بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔

غربت میں اضافہ

ماہر معاشیات قیصر بنگالی نے کہا کہ سپلائی چین بحران مہنگائی کو بڑھا رہا ہے اور حکومت کی آمدنی کو بھی مزید کم کر رہا ہے۔

یہ صورتحال بے روزگاری میں بھی اضافہ کر رہی ہے اور غربت کو ہوا دے رہی ہے جب کہ پاکستان میں تعمیراتی شعبے سے منسلک اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کے ایک بڑے حصے کو روزانہ کی بنیاد پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔

قیصر بنگالی نے اے ایف پی کو بتایا کہ باقاعدہ پیداوار کے دوران مزدوروں کو تقریباً 25 یوم (فی مہینہ) کی تنخواہ ملتی ہے لیکن اب انہیں 10 سے 15 روز کی اجرت مل رہی ہے جب کہ کچھ کمپنیوں نے اپنی پیداوار کو بھی معطل کردیا ہے اور مینوفیکچرنگ دوبارہ شروع ہونے کے بعد ہی ملازمین کو تنخواہ ملے گی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے ماہر معاشیات ناصر اقبال نے کہا کہ درآمدات پر پابندی جیسے کہ اس وقت نافذ ہے کبھی بھی پائیدار حل نہیں ہو سکتا۔

قدیم شاہراہ ریشم کے شہر پشاور میں شیشے سے لے کر ربر اور کیمیکل تک ہر چیز تیار کرنے والی فیکٹریاں گزشتہ کئی مہینوں میں ایک کے بعد ایک کرکے بند ہو رہی ہیں۔

2500 فیکٹریوں کی نمائندگی کرنے والی صنعتکار ایسوسی ایشن پشاور کے صدر ملک عمران اسحٰق نے کہا کہ تقریباً 600 کارخانے بند ہو چکے ہیں جب کہ بہت سے کارخانے آدھی صلاحیت پر کام کر رہے ہیں، پوری کاروباری برادری شدید پریشانی میں مبتلا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں