نقیب اللہ قتل کیس : راؤ انوار کی بریت سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج

اپ ڈیٹ 21 فروری 2023
23 جنوری کو اے ٹی سی نے سابق ایس ایس پی ملیر اور ان کی ٹیم کے 17 ارکان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
23 جنوری کو اے ٹی سی نے سابق ایس ایس پی ملیر اور ان کی ٹیم کے 17 ارکان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

نقیب اللہ محسود کے چھوٹے بھائی عالم شیر نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ان کے ماتحتوں کی بریت کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ تاحال نقیب اللہ محسود اور تین دیگر افراد کو ماورائے عدالت مبینہ پولیس مقابلے میں مارنے والے پولیس افسر کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ نہیں کرسکی ۔

23 جنوری کو اے ٹی سی نے سابق ایس ایس پی ملیر اور ان کی ٹیم کے 17 ارکان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا تھا۔

راؤ انوار اور ان کے 2 درجن کے قریب ماتحتوں کے خلاف مبینہ طور پر نقیب اللہ محسود کے نام سے مشہور نسیم اللہ اور دیگر تین جنوری 2018 میں مبینہ مقابلے میں ہلاک کرنے کا مقدمہ چلایا گیا۔

اپیل کنندہ عالم شیر نے وکیل جبران ناصر کے توسط سے اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف اپیل میں کہا کہ حقائق سے صرف نظر اور شواہد کا غلط جائزہ لینے کے علاوہ فیصلے میں قانونی نقائص ہیں۔

سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے 3 مقدمات میں ایک متفقہ فیصلہ دے کر قانون کی غلطی کی جب کہ اہم کیس کے علاوہ ملزم پولیس افسران کے خلاف متاثرین پر دھماکا خیز مواد اور ناجائز اسلحہ رکھنے کے 2 دیگر مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔.

ایڈووکیٹ جبران ناصر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسی طرح قانونی دائرہ اختیار کے پیش نظر یہ طے شدہ قانون ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 21-ایم کی دفعات عدالت کو مختلف ایف آئی آرز کے تحت علیحدہ علیحدہ مقدمات کو یکجا کرنے اور ایک ساتھ چلانے کا اختیار نہیں دیتیں۔

انہوں نے استدلال کیا کہ ٹرائل کورٹ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 201، 202 اور 204 کے تحت ملزمان کے خلاف الزامات کا فیصلہ کرنے میں ناکام رہا اور اس طرح ہر الزام سے کسی ملزم کو سزا دینے یا بری کرنے میں ناکامی لاعلاج نقص ہے۔

درخواست گزار نے الزام لگایا کہ ملزمان اتنے بااثر اور طاقت تھے کہ وہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے چار بے گناہوں کو دہشت گرد قرار دینے میں کامیاب ہو گئے، ان بے گناہوں کے بے رحمانہ قتل کو اصلی پولیس مقابلہ اور جعلی پانچ ایف آئی آرز کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی گئئی جب کہ وہ عدالت کے سامنے جھوٹی ثابت ہوئیں۔

اپیل کنندہ نے عدالت عالیہ نے استدعا کی کہ غیر قانونی فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور ملزمان کو قانون کے تحت مجرم قرار دے کر سخت سزا دی جائے۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت کے تحریری فیصلے کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 18 ملزمان کو مقدمے سے بری کردیا گیا جبکہ عدالت نے7 مفرور ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔

مفرور ملزمان میں امان اللہ مروت،گدا حسین، محسن عباس، صداقت حسین شاہ، راجہ شمیم مختار، رانا ریاض اور شعیب عرف شوٹر شامل تھے۔

تحریری فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ مقدمے میں شکوک و شہبات پائے گئے ، اسلامی اور یونیورسل اصول کے تحت شکوک وشہبات کا فائدہ ملزم کے حق میں جاتا ہے۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے تحریری فیصلہ میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اصول ہے کہ قاضی کی غلطی سے سزا دینے سے اس کی بریت بہتر فیصلہ ہے، عدالت کی نظر میں استغاثہ کیس ثابت نہیں کرسکی لہٰذا ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 14 جنوری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جس کی سماعت مکمل ہونے میں 5 برس لگے، یہ التوا سوشل میڈیا پر کراچی میں جعلی مقابلوں کے حوالے سے بحث اور خاص طور پر اس کیس سے جڑے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر تنقید کا سبب بن تھا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ماڈل نقیب اللہ محسود کراچی میں مقیم تھے، ان کے قتل نے سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے غم و غصے کو جنم دیا، سابق ایس ایس پی اور ان کی ٹیم کی گرفتاری میں ریاست کی ناکامی کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے ملک گیر احتجاج بھی کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں