جیل بھرو تحریک: یہ علامتی گرفتاری تھی، رہنماؤں کو رہا کریں، پی ٹی آئی کی لاہور ہائیکورٹ میں درخواست

اپ ڈیٹ 24 فروری 2023
پی ٹی آئی کے قائدین کو لاہور سے پولیس نے حراست میں لیا تھا — فوٹو: شاہ محمود قریشی ٹوئٹر
پی ٹی آئی کے قائدین کو لاہور سے پولیس نے حراست میں لیا تھا — فوٹو: شاہ محمود قریشی ٹوئٹر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ’جیل بھرو تحریک‘ کے تحت گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت کے دوران مؤقف اپنایا کہ یہ علامتی گرفتاری تھی لیکن رہنماؤں کو غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شہرام سرور چوہدری نے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری اور دیگر کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی رہائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار کے وکیل وقار مشتاق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے، ہمارے 100 سے زائد رہنماؤں اور کارکنوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے۔

عدالت نے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ پولیس تو آپ کو گرفتار نہیں کر رہی تھی، مگر آپ خود پولیس کی گاڑیوں پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔

جج کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے بلند ہوئے۔

عدالت نے درخواست گزار سے کہا کہ اب آپ عدالتوں پر بوجھ ڈالنے آگئے ہیں۔

جسٹس شہرام سرور نے استفسار کیا کہ حراست میں کیسے اور کب لیا گیا، جس پر وکیل نے کہا کہ قانون کے تحفظ اور بحالی کی تحریک کے دوران حراست میں لیا گیا ہے۔

وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے جج نے سوال کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ پلیز مجھے گرفتار کر لیں، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ یہ علامتی گرفتاری تھی۔

جسٹس شہرام سرور چوہدری نے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور زیر حراست رہنما شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی سے پوچھا کہ کیا آپ کے والد بھی گرفتار ہوئے ہیں۔

زین قریشی نے عدالت کو جواب دیا کہ جی بالکل گرفتار کیا ہوا ہے اور ہمیں اپنے والد سے ملنے کی اجازت دی جائے، جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ ملنا چاہتے ہیں تو چیئرنگ کراس چلے جائیں۔

زین قریشی نے کہا کہ ہم تو وہاں گئے تھے لیکن ہمیں تو گرفتار نہیں کیا گیا، جسٹس شہرام سرور کا کہنا تھا کہ آپ تو خود گئے کہ ہمیں گرفتار کرلیں بلکہ بتائیں کہ آپ لوگ خود گاڑی میں نہیں بیٹھے تھے۔

جسٹس شہرام سرور نے پی ٹی آئی رہنما کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کو دکھ اس بات کا ہے کہ لاہور سے باہر لے کر گئے ہیں، آپ سیکریٹری داخلہ کو کہہ دیں وہ آپ کو گھر میں نظر بند کر دیں جہاں ساری سہولیات ہوں گی۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ عدالت سے استدعا ہے کہ عدالت آج ہی جواب طلب کرلے لیکن عدالت نے پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست آج ہی مقرر کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

لاہور ہائی کورٹ نے سرکاری وکیل کو 27 فروری تک حکومت سے ہدایات لے کر پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے نوٹس جاری کردیا۔

عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زین قریشی نے کہا کہ کچھ معلوم نہیں ہے کہ والد کو کہاں رکھا گیا ہے، انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جیل مینوئل کے تحت بھی قیدیوں کے حقوق ہیں، وہ حقوق بھی فراہم نہیں کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم عدالت میں ان حقوق کے لیے حاضر ہوئے ہیں جو ہمیں ملنے چاہئیں، ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں گرفتار کیوں نہیں کیا بلکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ آئین اور قانون کے مطابق 24 گھنٹے میں پیش کرنا ہے۔

زین قریشی نے کہا کہ 72 گھنٹے گزر چکے ہیں لیکن ہمارا کوئی رابطہ نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں ہمیں معلوم نہیں ہے، ہم سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، ہماری تحریک آزادی اور قانون کی عمل داری کی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم نے اعتراض نہیں کیا کہ گرفتار کیوں کیا اور نہ ہی ضمانت مانگی ہے۔

اسد عمر کی اہلیہ کی بھی درخواست

دوسری جانب پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کی اہلیہ صوفیہ فاطمہ نے بھی اپنے شوہر کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔

صوفیہ فاطمہ نے درخواست میں ڈپٹی کمشنر، سی سی پی او، آئی جی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو فریق بناتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ اسد عمر اس وقت غیر قانونی حراست میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر اسد عمر کو حراست میں لیا، ہمارے علم میں آیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے غیر قانونی طور پر نظر بندی کا حکم جاری کیا ہے۔

درخواست میں انہوں نے مؤقف اپنایا ہے کہ صحت کے متعلق جاننے کے لیے ملنے کی کوشش کی لیکن حکام نے ملاقات کروانے سے انکار کر دیا۔

صوفیہ فاطمہ نے کہا کہ اسد عمر قانون کی پابندی کرنے والے شہری ہیں اور کسی غیر سماجی سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے، لہٰذا اسد عمر کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں رہا کردیا جائے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کے دوران گرفتار وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی، سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر، سینیٹر اعظم سواتی، سینیٹر ولید اقبال، عمر چیمہ، مراد راس، جان مدنی، اعطم نیازی اور احسان ڈوگر کی بازیابی کے لیے ایک سے زائد درخواستیں دائر کی تھیں۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری نے مشترکہ درخواست دائر کی تھی، اس کے علاوہ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی، سینیٹر ولید اقبال کی اہلیہ اور سینیٹر اعظم سواتی کے بیٹے نے بھی الگ الگ درواخواستیں دی تھیں، جس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم، انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور سی سی پی او کو فریق بنایا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے اعلان کے مطابق 22 فروری کو ’جیل بھرو تحریک‘ کے پہلے روز پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری جنرل اسد عمر سمیت دیگر سینئر قیادت لاہور میں گرفتاری دینے کے لیے زبردستی پولیس کی گاڑی میں سوار ہوگئی تھی۔

بعد ازاں ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ کپتان کی کال پر جیل بھرو تحریک کی قیادت کرتے ہوئے وعدے کے مطابق پہلی گرفتاری دینا باعثِ فخر ہے، یہ تحریک تب تک جاری رہے گی جب تک امپورٹڈ حکومت ملک میں جاری لاقانونیت ختم نہیں کردیتی اور عوامی عدالت میں گزشتہ 10 ماہ کی تباہ کاریوں کا حساب نہیں دیتی۔

فواد چوہدری نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جیل بھرو زندان بھرو تحریک کے پہلے مرحلے میں 700 لوگ گرفتار ہوئے لیکن باضابطہ طور پر صرف 81 کے لگ بھگ گرفتاریاں کی گئیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ باقی لوگ یا تو رہا ہو گئے یا مختلف تھانوں میں ہیں، ابھی مکمل معلومات حاصل کر رہے ہیں کہ کس کارکن کو کہاں رکھا گیا ہے، بہرحال خوف کا بت ٹوٹ چکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں