اداروں کو بغاوت پر اکسانے کا الزام: لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا جسمانی ریمانڈ منظور

اپ ڈیٹ 27 فروری 2023
پولیس کے مطابق امجد شعیب کے خلاف مقدمہ مجسٹریٹ اویس خان کی مدعیت میں درج ہے — فوٹو: ڈان نیوز
پولیس کے مطابق امجد شعیب کے خلاف مقدمہ مجسٹریٹ اویس خان کی مدعیت میں درج ہے — فوٹو: ڈان نیوز
امجد شعیب پر عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کا مقدمہ تھانا رمنا میں درج ہے—فائل فوٹو:شکیل قرار
امجد شعیب پر عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کا مقدمہ تھانا رمنا میں درج ہے—فائل فوٹو:شکیل قرار

اسلام آباد کی عدالت نے اداروں کو بغاوت پر اکسانےکے الزام میں گرفتار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

لیفٹیننٹ جزل ریٹائرڈ امجد شعیب کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا، اسلام آباد پولیس کے مطابق امجد شعیب پر عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کا مقدمہ تھانا رمنا میں درج ہے۔

بعد ازاں امجد شعیب کو جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کیا گیا، تھانہ رمنا کے تفتیشی افسر، پراسیکیوٹر اور امجد شعیب کی لیگل ٹیم بھی عدالت میں پیش ہوئی۔

پراسیکیوشن کی جانب سے امجد شعیب کی 7 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

عدالت میں پراسیکوٹر عدنان نے امجد شعیب کے خلاف مقدمےکا متن پڑھا، پراسیکوٹر کا کہنا تھا کہ نجی ٹیلی ویژن پر امجد شعیب بطور مہمان موجود تھے، امجد شعیب کے بیان سے حکومت کے خلاف نفرت پھیلائی گئی، بیان سے حکومت، اپوزیشن اور سرکاری ملازمین کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی، اپوزیشن کو حکومت کے خلاف مزید سخت حکمت عملی کے لیے اکسایا گیا۔

پراسیکوٹر کا کہنا تھا کہ امجد شعیب کے بیان سے 3 گروہوں کے درمیان نفرت پھیلائی گئی، امجد شعیب پر لگی دفعات کے تحت 5 اور 7 سال کی سزا ہوسکتی ہے، لاہور سے امجد شعیب کا فوٹوگرامیٹرک اور وائس میچنگ ٹیسٹ بھی کروانا ہے۔

امجد شعیب کے وکیل مدثر خالد عباسی نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کردی۔

مدثر خالد عباسی کا کہنا تھا کہ عدالت نے دیکھنا ہےکہ امجد شعیب نے کوئی جرم کیا بھی ہے یا نہیں، اگر مجسٹریٹ کو لگتا ہےکہ کوئی جرم نہیں کیا تو کیس ڈسچارج کیا جاسکتا ہے، امجد شعیب پر مقدمے میں لگائی گئی دفعات بنتی ہی نہیں، امجد شعیب نے ایک مخصوص صورتحال سے متعلق صرف مثال دی، امجد شعیب نے ایسی کیا بات کردی جس پر قانون نے کوئی پابندی لگائی ہو؟

امجد شعیب کے وکیل نے مزیدکہا کہ امجد شعیب نے ایسی بات آج تک نہیں کی جس سے ملک کو نقصان پہنچے، امجد شعیب کے خلاف صرف سیاسی بنیادوں پر مقدمہ دائر کیا گیا ہے، امجد شعیب تقریباً 80 سال کے ہیں، انہوں نے مثبت تنقیدکی، امجد شعیب کو کافی عرصے سے ہراساں کیا جارہا ہے، ایک گھنٹےکے اندر مقدمہ درج کرکے امجد شعیب کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا، جائز تنقید کرنا اگر غلط ہے تو اپوزیشن کو تو سسٹم سے ہی نکال دیں۔

صدر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن قیصر امام نے ملزم کی جانب سے اپنے دلائل میں کہا کہ امجد شعیب اپنے بیان کا اقرار کر رہے ہیں کہ وہی ٹیلی ویژن پر بیٹھے ہوئے تھے، اگر بیان اور اپنی موجودگی کا اقرار کرلیا تو فوٹوگرامیٹرک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیوں؟

پراسیکوٹر نے امجد شعیب کو کیس سے ڈسچارج کرنےکی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کے لیے وائس میچنگ اور فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کا ثبوت ضروی ہوتا ہے۔

امجد شعیب کے وکیل ریاست علی آزاد نے اپنے دلائل میں کہا کہ امجد شعیب نے 1965 اور 1971 کی جنگیں لڑیں، امجد شعیب پاکستان کے سب سے محب وطن شہری ہیں، امجد شعیب نے شہریوں کو نہیں کہا کہ سرکاری دفاتر نہ جائیں۔

بعد ازاں عدالت نے امجد شعیب کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا، کچھ دیر بعد عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے امجد شعیب کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

امجد شعیب کی گرفتاری

اسلام آباد پولیس کے مطابق لیفٹیننٹ جزل ریٹائرڈ امجد شعیب کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا، امجد شعیب پر عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کا مقدمہ تھانا رمنا میں درج ہے۔

پولیس کے مطابق امجد شعیب کے خلاف مقدمہ مجسٹریٹ اویس خان کی مدعیت میں درج ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب پر 153 اے اور 505 پی پی سی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ان کے خلاف درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق انہوں نے گزشتہ روز نجی نیوز چینل ’بول‘ پر ایک پروگرام میں عمران خان کی ’جیل بھرو تحریک‘ کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہیے، انہیں اسلام آباد میں لوگوں کو سرکاری دفاتر جانے سے روکنا چاہیے، جب ان کی اس کال پر عمل ہوگا تو اگلے دن ہی حکومت کچھ سوچنے پر مجبور ہوجائے گی۔

مقدمے کے مطابق امجد شعیب نے اپنے بیان کے ذریعے سرکاری ملازمین اور اپوزیشن کو اپنے سرکاری اور قانونی فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لیے اکسایا ہے، اس سے ان کا مقصد اپوزیشن اور سرکاری ملازمین میں حکومت کے خلاف نفرت، اشتعال انگیزی پھیلانا ہے تاکہ اس سے ملک میں بے چینی، بےامنی اور انتشار پیدا کیا جاسکے۔

ایف آئی آر کے مطابق اس بیان کی بنیاد پر وہ عوام، سرکاری ملازمین اور اپوزیشن کی جماعت کو ایسا مشورہ دے کر ملک کے ان مخصوص طبقات میں نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔

مقدمے کے مطابق ملزم کی اس بات سے حکومت اور حزب اختلاف میں مزید دشمنی، اشتعال انگیزی اور نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق اس بات سے ملک کے تینوں طبقات حکومت، اپوزیشن اور سرکاری ملازمین میں نفرت اور دشمنی کی فضا پیدا کی گئی ہے جو ملک کو کمزور کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔

مزید کہا گیا ہے کہ یہ تمام بیان ایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی کے تحت دیا ہے تاکہ ملک کو مزید کمزور کیا جا سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں