صدر مملکت نے بجلی کے کنیکشنز سے متعلق ’ناقابل عمل‘ بل واپس بھجوادیا

04 مارچ 2023
ذرائع کے مطابق یہ اقدام پاور ڈویژن کی جانب سے بل پر تحفظات کے اظہار کے بعد اٹھایا گیا—تصویر:عارف علوی/فیس بک
ذرائع کے مطابق یہ اقدام پاور ڈویژن کی جانب سے بل پر تحفظات کے اظہار کے بعد اٹھایا گیا—تصویر:عارف علوی/فیس بک

صدر مملکت عارف علوی نے الیکٹرسٹی جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹریبیوشن (ترمیمی) بل 2022 ’نظرِ ثانی‘ کے لیے پارلیمان کو واپس بھجوادیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئین کی دفعات 48(1) اور 75 (1) کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی تجویز پر واپس بھجوایا گیا۔

مذکورہ بل کو اب دوبارہ منظوری کے لیے پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قادر خان مندوخیل کی جانب سے پیش کیے گئے اس پرائیویٹ بل کو 2 دسمبر 2022 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں منظوری دی گئی تھی۔

اگر کوئی رکن قومی اسمبلی حکومتی وزیر نہ ہو تو اس کی پارلیمان میں پیش کردہ قانون سازی کو پرائیویٹ بل کہا جاتا ہے۔

اس بل میں ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹریبیوشن الیکٹرک پاور ایکٹ 1997 کے سیکشن 18 (1) میں ترمیم تجویز کی گئی تھی۔

ترمیم کی وجوہات بتاتے ہوئے بل میں کہا گیا کہ اگر بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں باقاعدگی سے بل بھرنے والے ان صارفین کے بجلی کے کنیکشنز بھی کاٹ دیتی ہیں جن کے پڑوسی نادہندہ ہوں۔

اس اقدام کو باقاعدگی سے بل بھرنے والوں کے ساتھ ’ناانصافی‘ قرار دیتے ہوئے اس مجوزہ قانون سازی میں ایسا میکانزم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو اس عمل کو روک دے۔

صدارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے صدر عارف علوی کو تجویز دی تھی کہ اس بل کو فوری طور پر واپس بھیجا جائے۔

ذرائع کے مطابق یہ اقدام پاور ڈویژن کی جانب سے بل پر تحفظات کے اظہار کے بعد اٹھایا گیا۔

پارلیمان جو بھی بل منظور کرتی ہے اسے وزیراعظم کی جانب سے صدر کو بھجوایا جاتا ہے تا کہ ان کی منظوری سے وہ قانون بن جائے۔

مذکورہ بل وزیراعظم کی میز پر گزشتہ 3 ماہ سے موجود تھا جنہوں نے اسے صدر کی منظوری کے لیے نہیں بھجوایا تھا۔

حکمراں اتحاد کے ایک آئینی ماہر نے رابطہ کرنے پر کہا کہ حکومت کی مخالفت کے باوجود بل بظاہر منظور ہوچکا تھا اس لیے وزیراعظم نے اسے فوری طور پر صدر مملکت کی منظوری کے لیے نہیں بھجوایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر پارلیمانی امور نے یہ بل صدر کو بھجوایا تھا جو آئین کے مطابق 14 روز کے اندر اس کی منظوری دینے کے پابند ہیں۔

آئینی ماہر نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم نے بل کو اتنے عرصے اپنے پاس رکھ کر کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا کیوں کہ آئین میں صدر کو بل بھجوانے کے لیے وقت کی قید نہیں۔

انہوں نے وزیراعظم کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے مزید کہا کہ بل کے متن پر عملدرآمد کرنا بجلی کی کمپنیوں کے لیے ’ناقابل عمل ہے‘۔

تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ وزیراعظم کو اپنی تجویز صدر مملکت کو جلد از جلد بھجوانی چاہیے تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں