صنفی مساوات میں اب بھی 300 سال لگیں گے، سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ

اپ ڈیٹ 07 مارچ 2023
انتونیو گوتریس نے کہا کہ پدر شاہی نظام مزاحمت کررہا ہے لیکن ہم بھی کر رہے ہیں —تصویر: اے ایف پی
انتونیو گوتریس نے کہا کہ پدر شاہی نظام مزاحمت کررہا ہے لیکن ہم بھی کر رہے ہیں —تصویر: اے ایف پی

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے عالمی پیش رفت ’ہماری آنکھوں کے سامنے غائب ہوتی جارہی ہے‘ اور صنفی مساوات کے دور ہوتے ہدف کو حاصل کرنے میں مزید تین صدیاں لگیں گی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کمیشن آف دی اسٹیٹس آف ویمن کی سربراہی میں ہونے والی 2 ہفتوں پر محیط گفت و شنید کا آغاز کرتے ہوئے 8 مارچ کو عالمی یومِ نسواں سے قبل جنرل اسمبلی میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ رفتار پر صنفی مساوات مزید دور ہوتی جارہی ہے اور اقوام متحدہ کی خواتین اسے 300 سال کی دوری پر دیکھتی ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے، یہ خطرے سے دوچار ہیں اور ان کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں‘۔

سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ نے یہ بات خواتین کو گھیرے بحرانوں مثلاً زچگی کی شرح اموات، لڑکیوں کو اسکول سے نکالنے، دیکھ بھال کرنے والوں کے کام سے انکار اور بچوں کو کم عمری کی شادی پر مجبور کرنے کے تناظر میں کہی۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ کئی دہائیوں میں حاصل کی گئی ترقی ہماری آنکھوں کے سامنے غائب ہو رہی ہے۔

انہوں نے خاص طور پر طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں سنگین حالات پر روشنی ڈالی، جہاں ’خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی سے غائب کردیا گیا ہے۔‘

انہوں نے دیگر ممالک کا نام خاص طور پر نہیں لیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ ’بہت سی جگہوں پر خواتین کے جنسی اور تولیدی حقوق واپس لیے جا رہے ہیں (اور) کچھ ممالک میں، اسکول جانے والی لڑکیوں کو اغوا اور حملوں کا سامنا کرنے کا خطرہ ہے۔‘

اس کے علاوہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے ایران کا بھی نام نہیں لیا جسے گزشتہ سال ستمبر میں خواتین کی قیادت میں ہونے والی بغاوت پر حکومت کے جبر کی وجہ سے کمیشن آف دی اسٹیٹس آف ویمن سے نکال دیا گیا تھا۔

ایران کو 14 دسمبر کو امریکی قیادت میں اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل کے ووٹ کے ذریعے کمیشن سے بے دخل کیا گیا تھا۔

سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ کا کہنا تھا کہ صدیوں کے پدر شاہی نظام، امتیازی سلوک اور نقصان دہ دقیانوسی تصورات نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایک بہت بڑا صنفی فرق پیدا کیا ہے’۔

انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ کس طرح ان شعبوں میں نوبل انعام حاصل کرنے والوں میں خواتین کی تعداد محض 3 فیصد ہے۔

انہوں نے حکومتوں، سول سوسائٹی اور نجی شعبے سے دنیا بھر میں ’اجتماعی کوشش‘ کا مطالبہ کیا تاکہ صنفی فرق ختم کرنے والی تعلیم فراہم کی جائے، مہارت کی تربیت کو بہتر بنایا جائے اور ’ڈیجیٹل صنفی تقسیم کو ختم کرنے‘ میں مزید سرمایہ کاری کی جائے۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ پدرِ شاہی نظام مزاحمت کر رہا ہے لیکن ہم بھی کر رہے ہیں، اقوامِ متحدہ ہر جگہ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں