توشہ خانہ سے 300 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ حاصل کرنے پر پابندی عائد

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2023
گریڈ 5 یا اس سے زائد کے افسران کسی غیر ملکی شخصیت سے نقد رقم وصول نہیں کر سکتے — فائل فوٹو: اے پی پی
گریڈ 5 یا اس سے زائد کے افسران کسی غیر ملکی شخصیت سے نقد رقم وصول نہیں کر سکتے — فائل فوٹو: اے پی پی

وفاقی کابینہ نے ’توشہ خانہ پالیسی 2023‘ کی منظوری دے دی جس کے تحت صدر، وزیراعظم اور کابینہ ارکان سمیت دیگر سرکاری عہدیداروں پر 300 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ حاصل کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔

وفاقی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں توشہ خانہ کے قواعد میں ترامیم کردی گئی ہیں، اس حوالے سے وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ 8 مارچ کے نوٹی فکیشن کے مطابق تحفہ حاصل کرنے والے پبلک آفس ہولڈر کی ذمہ داری ہوگی کہ اس تحفے کو رپورٹ کرے، تحفہ ملنے یا وطن واپسی کے 30 روز کے اندر اندر تحفے کو رپورٹ کرنا اور جمع کروانا لازمی ہوگا۔

فیصلے کے مطابق کوئی بھی پبلک آفس ہولڈر 300 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ اپنے پاس نہیں رکھ سکے گا، 300 ڈالر سے کم کا تحفہ مروجہ طریقہ کار کے تحت رقم ادا کر کے حاصل کیا جاسکے گا۔

نوٹی فکیشن کے مطابق خراب ہونے والی اشیائے خورونوش کو رپورٹ کرنا یا جمع کروانا لازم نہیں ہوگا، گریڈ 5 یا اس سے زائد کے افسران کسی غیر ملکی شخصیت سے نقد رقم وصول نہیں کر سکتے۔

وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ تحائف کی مالیت کے تعین کے لیے کابینہ ڈویژن ایف بی آر کے ماہرین اور نجی شعبے کی خدمات بھی حاصل کرے گا۔

مزید کہا گیا کہ توشہ خانہ کے نئے طریقہ کار کا اطلاق صدر مملکت، وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیف جسٹس آف پاکستان پر ہوگا۔

نوٹی فکیشن کے مطابق گورنرز، وفاقی کابینہ کے اراکین، اٹارنی جنرل، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی پر بھی طریقہ کار کا اطلاق ہوگا، علاوہ ازیں صوبائی وزرا، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز، ارکان پارلیمنٹ اور تمام سول اور ملٹری حکام پر بھی اس کا اطلاق ہوگا۔

توشہ خانہ پالیسی 2023 کے مطابق اب سونے اور چاندی کے سکوں کی صورت میں ملنے والے تحائف اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے کردیے جائیں گے۔

فیصلے کے مطابق تحائف کے طور پر ملنے والی گاڑیاں اور قیمتی نوادرات خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی، تحائف میں ملنے والی گاڑیاں کابینہ ڈویژن کی گاڑیوں کے سینٹرل پول میں جمع کروادی جائیں گی جبکہ قیمتی نوادرات میوزیم یا سرکاری مقامات پر نمائش کے لیے رکھے جائیں گے۔

کابینہ ڈویژن نے فیصلہ کیا کہ گزشتہ 20 برسوں (2002 کے بعد) کے توشہ خانہ کے تحائف سے متعلق معلومات کو پیش کرنے والی معزز شخصیت یا ملک کا نام ظاہر کیے بغیر فوری طور پر ڈی کلاسیفائیڈ کیا جائے اور فوری طور پر کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جائے، کابینہ ڈویژن کی جانب سے توشہ خانہ کے تحائف کی فہرست ہر سہ ماہی اپنی ویب سائٹ پر اپ ڈیٹ کی جائے گی۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل حکومت نے سال 2002 سے 2022 کے دوران توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والے سرکاری عہدوں کے حامل افراد کا ریکارڈ پبلک کردیا تھا جن میں سابق صدور، وزرائے اعظم، وفاقی کابینہ کے ارکان، سیاستدان، بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جرنیل، جج اور صحافی بھی شامل ہیں۔

قبل ازیں 9 مارچ کو وزیر دفاع خوجہ آصف نے اپنی ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ ’کابینہ نے توشہ خانہ کا ریکارڈ ڈی کلاسیفائی کرنے کی اجازت دے دی، یہ ریکارڈ ان شا اللہ بہت جلد کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر پوسٹ کر دیا جائے گا‘۔

واضح رہے کہ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب 23 فروری کو وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ میں 1947 سے اب تک توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے کی تفصیلات کی فراہمی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران کابینہ کا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا فیصلہ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2002 سے توشہ خانہ تحائف خریدنے والوں کا ریکارڈ ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے گا۔

اس سے قبل ہونے والی سماعت پر ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے سیل شدہ ریکارڈ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ توشہ خانہ کے ریکارڈ کو پبلک کر نے کے بارے میں آئندہ وفاقی کابینہ اجلاس میں فیصلہ ہونا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے کابینہ کا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا فیصلہ اس کو پبلک کرنے کی درخواست کی سماعت کے دوران سنگل رکنی بینچ کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

یہ درخواست شہری منیر احمد نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے دسمبر 2022 میں دائر کی تھی، درخواست میں قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ سے دیے گئے تحائف اور جن اشخاص کو تحفے دیے گئے ان کی تفصیلات مانگی گئی تھیں۔

درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق نے مؤقف اپنایا تھا کہ حکومت کو سارا ریکارڈ عدالت کے سامنے رکھنا چاہیے، جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے تھے کہ ایک دم سے چیزیں تبدیل نہیں ہوتیں، 2023 میں حکومت نے ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 13 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔

اس سے قبل ایک سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے قیام پاکستان کے بعد سے سیاسی حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو غیر ملکی شخصیات کی جانب سے ملنے والے توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

عدالت کے حکم کے جواب میں حکومت نے عدالت میں مؤقف اپنایا تھا کہ توشہ خانہ معلومات افشا کرنے سے غیر ملکی تعلقات خراب ہو سکتے ہیں، حکومت کے جواب پر عدالت نے ہدایت کی تھی کہ معلومات کے ’کلاسیفائیڈ‘ ہونے کے حوالے سے 2 ہفتے میں حلف نامہ جمع کرایا جائے۔

سیکریٹری کابینہ کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا تھا کہ 26 نومبر 2015 کے وزیراعظم آفس کے سرکلر کے تحت توشہ خانہ کے تحائف کی معلومات کلاسیفائیڈ ہوتی ہیں، ایسی معلومات کو افشا کرنے سے غیر ضروری میڈیا تشہیر ہو سکتی ہے جس سے غیر ملکی تعلقات کو نقصان ہو سکتا ہے، بین الاقوامی پریکٹس کے مطابق نئی توشہ خانہ پالیسی بنا رہے ہیں۔

سیکریٹری کابینہ ڈویژن کے جواب میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم نے بین الاوزارتی کمیٹی بنائی جس نے پالیسی پر اپنی تجاویز جمع کرائیں، نیا توشہ خانہ بل وزیراعظم آفس کی منظوری کے بعد وفاقی کابینہ کے روبرو رکھا گیا، ہدایت کی روشنی میں توشہ خانہ بل کابینہ کے ارکان کو بھیج دیا ہے۔

خیال رہے کہ توشہ خانہ، کابینہ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول کے تحت 1974 میں قائم کیا گیا محکمہ ہے جو حکمرانوں، اراکین پارلیمنٹ، بیوروکریٹس کو دیگر ممالک کی حکومتوں اور ریاستوں کے سربراہان اور غیر ملکی مہمانوں کی جانب سے دیے گئے قیمتی تحائف کو اپنی تحویل میں رکھتا ہے۔

یہ محکمہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کے تحائف اور ان کی مبینہ فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی تفصیلات شیئر نہ کرنے اور جھوٹے بیانات اور غلط ڈیکلیریشن پر ان کی نااہلی کی وجہ سے حالیہ دنوں میں خبروں میں رہا ہے۔

توشہ خانہ قوانین کے مطابق تحائف اور اس طرح کی موصول ہونے والی دیگر اشیا کو کابینہ ڈویژن میں رپورٹ کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں