خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کے وارنٹ گرفتاری 16 مارچ تک معطل

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2023
ڈیوٹی جج سکندر خان کی عدالت میں درخواست دائر کی گئی — فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر
ڈیوٹی جج سکندر خان کی عدالت میں درخواست دائر کی گئی — فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر

خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے کے کیس میں عدالت نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری 16 مارچ تک معطل کردیے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی کی عدالت میں عمران خان کی جانب سے نعیم پنجوتھا اور انتظار پنجوتھا پیش ہوئے۔

انتظار پنجوتھا نے کہا کہ عمران خان پر لگائی گئی تمام دفعات قابلِ ضمانت ہیں، جج نے استفسار کیا کہ اس سے پہلے کیا قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے؟

اس پر انتظار پنجوتھا نے کہا کہ اس سے پہلے خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہوئے۔

دوران سماعت عدالت نے عمران خان کے وکلا کو عدالتی دستاویزات ٹھیک کرکے دینے کی ہدایت کی، جج نے ریمارکس دیے کہ ’15 منٹ سے پڑھ رہا ہوں، مجھے آپ کی طرف سے دیے گئے دستاویزات سمجھ نہیں آرہے‘۔

انتظار پنجوتھا نے کہا کہ درخواست گزار عمران خان سابق وزیراعظم ہیں، سیکیورٹی مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومت نے عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی ہے۔

جج نے استفسار کیا کہ ’کوئی ایسا خط ہے آپ کے پاس جس میں لکھا ہو کہ عمران خان کی سیکیورٹی واپس لے لی گئی؟‘

انتظار پنجوتھا نے کہا کہ ’میں آپ کو مہیا کردیتا ہوں‘، جج نے ہدایت کی کہ ’پھر کل تک مہیا کردیں‘۔

دوران سماعت سرکاری وکیل نے کہا کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں طلب کر رکھا تھا، جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کی الیکشن مہم تو شروع ہے۔

نعیم پنجوتھا نے کہا کہ عمران خان جوڈیشل کمپلیکس پیش ہوئے، اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل کمپلیکس پیش ہوئے لیکن کچہری تو پیش نہیں ہوئے نا، کچہری میں 2014 میں حملہ ہوا، کیا اس کے بعد کچہری تبدیل ہوئی؟ عمران خان کی حکومت تھی لیکن پھر بھی کچہری تبدیل نہیں ہوئی، آپ نے اپنے دور حکومت میں کچہری کو تبدیل نہیں کروایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریکِ انصاف نام تو ہے لیکن کِیا کیا ہے؟ باتیں تو بہت ہوتی ہیں، تحریکِ انصاف کا کوئی ایک لیگل ریفارم بتا دیں؟ ویڈیو لنک پر ہو سکتی ہے لیکن لیگل ریفارم پر آپ کا دھیان ہی نہیں ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ’ایف آئی آر سے دہشت گردی کی دفعات ہٹا دی گئیں ہیں؟‘ عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ ’جی، دہشت گردی کی دفعات ہٹا دی گئی ہیں‘۔

عدالت نے کہا کہ سیکیورٹی واپس لینے سے متعلق کوئی دستاویز فراہم کریں، انتظار پنجوتھا نے کہا کہ 21 مارچ کی تاریخ دے دیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ویڈیو لنک کی درخواست ہے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کو بھی معلوم ہے ویڈیو لنک پر کیا ہونا ہے، پھر 2 ماہ کی تاریخ دے دیتا ہوں‘، انتظار پنجوتھا نے کہا کہ ’نجی مصروفیات کے باعث کل پیش نہیں ہوسکتا، پرسوں کی تاریخ دے دیں‘۔

عدالت نے پی ٹی آئی وکلا کو سیکیورٹی واپس لینے سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

بعدازاں فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت پرسوں تک ملتوی کردی گئی اور عدالت نے 16 مارچ تک عمران خان کو گرفتار کرنے سے روک دیا۔

قبل ازیں خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے کے کیس میں عمران خان نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں چیلنج کیا تھا۔

عمران خان کی قانونی ٹیم کی جانب سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں سیشن جج طاہر محمود کے رخصت پر ہونے کے باعث ڈیوٹی جج سکندر خان کی عدالت میں درخواست دائر کی گئی۔

عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا اور انتظار حیدر پنجوتھا کی جانب سے دائر درخواست ڈیوٹی جج سکندر خان نے ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی کو مارک کی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے اور توشہ خانہ کیسز میں عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔

عدالت نے مارگلہ پولیس کو 29 مارچ تک سابق وزیر اعظم کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا تھا، عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ آئندہ سماعت پر عمران خان کی جانب سے بریت کی درخواست پر بحث ہو گی۔

قبل ازیں 9 مارچ کو خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینےکے کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی تھی۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں‘، اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہوجائیں۔

توہین الیکشن کمیشن پر سماعت 28 مارچ تک ملتوی

دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی قیادت کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس میں عمران خان اور فواد چوہدری کے وکلاالیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے، دورانِ سماعت پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا روازنہ صبح اٹھتے ہیں تو نئے مقدمات درج ہوتے ہیں۔

رکن الیکشن کمیشن نثار درانی نے کہا یہ معاملات سیاسی جماعتوں نے ٹھیک کرنے ہیں، فواد چوہدری بولے ہمیں دو اداروں سے امید ہے، ایک سپریم کورٹ اور دوسرا الیکشن کمیشن، انتخابی ادارے کو نیوٹرل نظرآنا چاہیے۔

رکن الیکشن کمیشن نے کہا ہم تو ہمیشہ سے نیوٹرل رہے ہیں، فواد چوہدری نے کہا ہم الیکشن کمیشن کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں، اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا گزارش ہے کہ معاملے کو ختم کردیں، رکن الیکشن کمیشن شاہ محمد جتوئی نے کہا کہ آپ لوگ روز ٹی وی پر بیٹھ جاتے ہیں، پتا نہیں ہوتا کہ کب کیا کہا ہے۔

دورانِ سماعت سابق وزیراعظم عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی دائر کردی گئی، اس موقع پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر خان صاحب کو ویڈیو لنک پر لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں، عمران خان نے آنا ہے لیکن سیکیورٹی کے مسائل کا سامنا ہے۔

رکن الیکشن کمیشن نثار درانی نے کہا یہ آئین و قانون کا مسئلہ ہے، الیکشن کمیشن سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرے گا، بعد ازاں الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 28 مارچ تک ملتوی کردی۔

پس منظر

گزشتہ سال اگست میں الیکشن کمیش نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو مختلف جلسوں، پریس کانفرنسز اور متعدد انٹرویوز کے دوران الزمات عائد کرنے پر الیکشن کمیشن کی توہین اور ساتھ ہی عمران خان کو توہین چیف الیکشن کمشنر کا نوٹس بھی جاری کیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے نوٹس میں عمران خان کے مختلف بیانات، تقاریر، پریس کانفرنسز کے دوران اپنے خلاف عائد ہونے والے بے بنیاد الزامات اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف استعمال ہونے والے الفاظ، غلط بیانات و من گھڑت الزامات کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کو 30 اگست کو اپنے جواب کے ساتھ کمیشن میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا تھا۔

ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹسز جاری کیے ہیں اور کہا گیا ہے کہ 30 اگست کو ذاتی حیثیت یا بذریعہ وکیل پیش ہوں۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ پیمرا کے ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے 11 مئی، 16 مئی، 29 جون، 19، 20 جولائی اور 7 اگست کو اپنی تقاریر، پریس کانفرنسز اور بیانات میں الیکشن کمیشن کے خلاف مضحکہ خیز اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کی، توہین آمیز بیانات دیے اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جو براہ راست مرکزی ٹی وی چینلز پر نشر ہوئے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو مخاطب کرکے نوٹس میں مزید کہا تھا کہ آپ نے 12 جولائی کو بھکر میں ہونے والے جلسے میں خطاب کیا جو ’اے آر وائی‘ پر نشر ہوا اور ساتھ ہی اگلے دن روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہوا، جس میں آپ نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین آمیز باتیں کیں اور ان پر من گھڑت الزامات عائد کیے۔

تبصرے (0) بند ہیں