معمر ترین فلسطینی قیدی 17 برس بعد اسرائیلی جیل سے رہا

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2023
<p>مرحوم فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے مقبرے پر فلسطینی حکام نے فواد شوباکی کا والہانہ استقبال کیا — فوٹو: انادولو ایجنسی</p>

مرحوم فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے مقبرے پر فلسطینی حکام نے فواد شوباکی کا والہانہ استقبال کیا — فوٹو: انادولو ایجنسی

اسرائیلی جیل میں معمر ترین فلسطینی قیدی کو اسلحے کی اسمگلنگ کے جرم میں 17 سال قید کے بعد رہا کر دیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی قیدیوں کے کلب کے ترجمان نے بتایا کہ 83 سالہ فواد شوباکی کو عسقلان جیل سے رہا کیا گیا ہے اور وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں راملہ جارہے ہیں، فواد شوباکی کے بیٹے حازم نے بھی اس پیش رفت کی تصدیق کی۔

رہائی کے بعد فواد شوباکی اپنے قریبی ساتھی مرحوم فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے مقبرے پر پہنچے جہاں فلسطینی حکام نے ان کا والہانہ استقبال کیا، چھوٹے بچوں نے تحریکِ فتح کا جھنڈا تھام رکھا تھا جبکہ خواتین نے ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں جن پر فواد شوباکی کی نوجوانی کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔

یاسر عرفات کے مقبرے پر دعا کرنے کے بعد فواد شوباکی نے مرحوم فلسطینی رہنما کی مزاحمت کی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا، انہوں نے کہا کہ ’ہم اس راستے پر چلیں گے جو یاسر عرفات نے ہمارے لیے طے کیا تھا، ہم ان کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے، ہمارے وطن، ہمارے لوگوں اور شہدا کی بات آئے تو ہماری جانیں بے وقعت ہیں‘۔

تحریک فتح کے سینیئر رکن فواد شوباکی کو فلسطینی سیکورٹی فورسز نے 2002 میں دوسری بغاوت کے عروج کے وقت گرفتار کیا تھا۔

ان پر الزام تھا کہ وہ ایران سے غزہ کے ساحلی انکلیو میں ہتھیاروں کو اسمگل کرنے کی کوشش میں ملوث کرین اے جہاز پر سوار تھے جسے اسرائیل نے بحیرہ احمر میں قبضے میں لیا تھا، اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ جہاز پر 50 ٹن ہتھیار لدے ہوئے تھے۔

انہیں فلسطینی اتھارٹی نے مغربی کنارے کے شہر جیریکو میں امریکی اور برطانوی نگرانی میں زیرحراست رکھا گیا تھا، 2006 میں اسرائیلی فورسز نے جیل پر دھاوا بول دیا اور فواد شوباکی پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے لیے اسرائیل لے جایا گیا۔

ضرور پڑھیں

کیا زبان بولتے ہوئے لہجے کی مقامیت آنی چاہیے؟

کیا زبان بولتے ہوئے لہجے کی مقامیت آنی چاہیے؟

زبان بولتے ہوئے لہجے کی مقامیت آنی چاہیے۔ تلفظ اور معنی کے رشتے کو ضرور ملحوظ رکھا جانا چاہیے اور ہمیں لہجوں کی مقامیت مزاح میں استعمال کرتے ہوئے لسانی و ثقافتی بالادستی کا تاثر نہیں دینا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں