لاہور ہائی کورٹ: عمران خان کی 9 مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 17 مارچ 2023
عمران خان پیشی کے لیے لاہور ہائی کورٹ آ رہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان پیشی کے لیے لاہور ہائی کورٹ آ رہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان کی آمد کے موقع پر لاہور ہائی کورٹ کے باہر کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی— فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان کی آمد کے موقع پر لاہور ہائی کورٹ کے باہر کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی— فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اسلام آباد اور لاہور میں دہشت گردی سمیت دیگر الزامات پر درج 9 مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔

چیئرمین پی ٹی آئی اپنے خلاف درج 9 مقدمات میں حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ پہنچے تھے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے دہشت گردی کے الزامات سمیت چار مقدمات میں حفاظتی ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کی جبکہ 5 مقدمات میں ضمانت کی درخواست کی سماعت جسٹس سلیم شیخ پر مشتمل سنگل رکنی بینچ نے کی۔

ان میں سے دو مقدمات اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ سے متعلق ہیں جبکہ ایک زمان پارک میں پولیس آپریشن سے متعلق ہے، اس کے علاوہ ایک کیس پی ٹی آئی کارکن ظِل شاہ کی موت سے متعلق ہے۔

مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو عمران خان روسٹرم پر آئے اور ان کے وکیل نے دلائل دینا شروع کیے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ میرے مؤکل پر 6 مقدمات اسلام آباد اور تین لاہور میں درج ہوئے اور انہوں نے متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کے لیے حفاظتی ضمانت کے لیے درخواست دی ہے جبکہ عمران خان کو تاحال مقدمات کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ہمارے پاس جن مقدمات میں درخواست ضمانت دائر ہوئی ہے اس میں ہی ضمانت دے سکتے ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پولیس 5 سے 6 ہزار افراد کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ ہم آپ کو اسی کیس میں ضمانت دے سکتے ہیں جو کیس ہمارے سامنے ہیں۔

اس موقع پر فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان بات کرنا چاہتے ہیں جس پر عدالت نے بات کرنے کی اجازت دے دی۔

عمران خان نے کہا کہ سر مسئلہ یہ ہے کہ اتنے زیادہ مقدمات ہیں کہ سمجھ نہیں آ رہی ادھر سے ضمانت لیں تو اور مقدمہ ہو جاتا ہے، جیسے میرے گھر پر حملہ ہوا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا، میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے بچا لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے گھر میں آنسوگیس کی شیلنگ ہوئی لیکن میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ خان صاحب قانون میں تمام مسائل کا حل موجود ہے، اگر آپ سسٹم کے ساتھ چلیں تو ٹھیک ہے۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ میرے اوپر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے، جہاں اسلام آباد میں کچہری ہے وہاں خود کش حملہ ہو چکا ہے، میں قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں اور عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے آپ کو نظام میں لائیں، اس کیس میں کوئی مسئلہ نہیں تھا آپ لوگوں نے اسے مس ہینڈل کیا۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے 5 مقدمات ہیں لیکن عمران خان پر دہشت گردی کے 6 مقدمات ہیں، اس پر عمران خان نے کہا کہ میرے اوپر 94 مقدمات ہیں، 6 اور ہو گئے تو سنچری پوری جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ میری نان کرکٹنگ سنچری ہو گی جس پر عدالت میں قہقہ گونج اٹھا۔

اس کے بعد عدالت نے عمران خان کی کل 8 مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور کر لی، ان میں سے پانچ مقدمات اسلام آباد کے ہیں جبکہ لاہور میں درج تین مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور کی گئی۔

اس مقدمے کے بعد جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کی تھانہ ریس کورس سمیت دیگر مقدمات میں حفاظتی ضمانت پر سماعت کی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں ضمانت کی درخواست غیرمؤثر ہو چکی ہے۔

عمران خان کے خلاف جلاؤ گھیراؤ، کار سرکار میں مداخلت کے مقدمے میں حفاظتی ضمانت پر سماعت کے دوران ان کے وکیل نے عدالت سے حفاظتی ضمانت کی استدعا کی۔

اس موقع پر فواد چوہدری نے کہا کہ ظل شاہ کیس میں دو گھنٹے میں عمران خان سمیت سب پر ایف آئی آر درج کر دی گئی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ لاہور کے تھانہ سرور روڈ کا ایک مقدمہ ہے، اس میں 10دن کی ضمانت دے دی جائے، یہ ظل شاہ والا کیس ہے۔

عدالت نے وکیل کی استدعا پر تھانہ سرور روڈ کے مقدمے میں 27 مارچ تک حفاظتی ضمانت منطور کر لی۔

وکیل نے کہا کہ عمران خان کے خلاف مقدمات کی تفصیلات نہیں بتائی جا رہیں کہ کتنے مقدمات ہیں لہٰذا جب تک تفصیلات نہیں آتیں تب تک عمران خان کے خلاف تادیبی کارروائی روک دی جائے۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہا ہوں لیکن دیگر صوبوں میں کتنے مقدمات ہیں یا اور مقدمات ہیں بھی کہ نہیں، یہ نہیں بتا سکتا۔

لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف پنجاب بھر میں درج مقدمات کی تفصیلات کی رپورٹ منگل تک طلب کر لی اور عمران خان کے خلاف تادیبی کارروائی روک دی۔

آئی جی پنجاب عمران خان کو عدالت پہنچنے کے لیے سہولت فراہم کریں، عدالت

اس سے قبل عمران خان کی آمد سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹر عثمان انور کو ہدایت کی تھی کہ وہ پی ٹی آئی سربراہ کو عدالت پہنچنے میں سہولت فراہم کریں۔

عدالت نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ وہ شام 5 بجے عمران کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کرے گی لیکن بعد میں پی ٹی آئی چیئرمین کو ساڑھے پانچ بجے تک کا وقت دے دیا گیا۔

عمران خان شام کو ساڑھے پانچ بجے کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں کے ہمراہ لاہور ہائی کورٹ پہنچے اور اس دوران لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے عمران خان کے وکیل اظہر صدیق کی جانب سے پی ٹی آئی سربراہ کی گاڑی کو عدالت کے احاطے میں داخلے کی اجازت دینے کی درخواست بھی قبول کرلی۔

ٹی وی پر نشر ہونے والی فوٹیج میں عمران خان کی گاڑی عدالت کے احاطے میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا گیا البتہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گیٹ پر روک دیا گیا۔

عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے کل تک پولیس کو ان کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست پر سماعت کی، عمران خان کی جانب سے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اعتراضات کے حوالے سے کیا بنا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ بائیو میٹرک ہوگئی وہاں سے سافٹ کاپی آئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست پر اعتراضات دور کردیے، خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج، ہائی کورٹ کے آرڈر کو درست طور پر سمجھ نہیں سکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بتائیں کہ رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کر دیے گئے ہیں؟ شبلی فراز نے جواب دیا کہ جی، اعتراضات دور کر دیے ہیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ خاموش ہو جائیں، آپ کے وکیل بات کر رہے ہیں، ٹرائل کورٹ کو بیان حلفی سے متعلق مطمئن ہوکر فیصلہ کرنے کا کہا تھا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ نے کس بنیاد پر انڈر ٹیکنگ مسترد کردی؟ خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے کہا کہ ناقابل ضمانت وارنٹ منسوخ نہیں کرسکتے، عدالت نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا انڈر ٹیکنگ ابھی بھی موجود ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم کل ٹرائل کورٹ میں پیش ہونا چاہتے ہیں، درخواست گزار پہلے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ ہم سب قانون کے سامنے برابر ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ درخواست گزار زخمی ہوا ہے اور ان کو جان کا خطرہ ہے، عدالت نے کہا کہ امید ہے سیشن کورٹ سیکیورٹی کی فراہمی کو اچھی طرح دیکھ لیں گی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ہماری استدعا تھی کہ عمران خان کے وارنٹ منسوخ یا معطل کر دیے جائیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کی انڈرٹیکنگ اب بھی موجود ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کی سیکیورٹی کے لیے درخواست دائر کی گئی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے انتظامی سائیڈ پر بتایا گیا کہ سیکیورٹی انتظامات کیے جا رہے ہیں، ٹرائل کورٹ کے جج نے اس حوالے سے حکم بھی دیا ہے، میں بھی دیکھوں گا اور سیکیورٹی یقینی بنائی جائے گی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کے خلاف اور مقدمات بھی درج ہیں اُن میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دی ہے، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ وہ اُن کا حق ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے کہا کہ جو کچھ لاہور میں ہوا اس کی وجہ سے یقین دہانی قبول نہیں کر سکتا، میں نے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کا نہیں، معطل کرنے کا کہا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا تحریری یقین دہانی اب بھی موجود ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ جی اس وقت بھی 18 مارچ کو پیش ہونے کی یقین دہانی موجود ہے، اگر عدالت وارنٹ معطل کر دے تو کل عمران خان پیش ہو جائیں گے، اصل بیانی حلفی ٹرائل کورٹ میں جمع کر چکے ہیں، جو یہاں جمع کر رہے ہیں یہ کاپی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ انڈر ٹیکنگ کی خلاف ورزی کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ہر صورت میں میرے مؤکل کل عدالت کے سامنے پیش ہوں گے۔

پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل خواجہ حارث نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے عمران خان کی جانب سے کل حاضری سے متعلق بیان حلفی جمع کرایا تھا، خواجہ حارث نے عمران خان کی ٹرائل کورٹ کے سامنے کل پیش ہونے کی زبانی یقین دہانی کرائی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کا حکم معطل کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو عدالتی اوقات کار میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے عمران خان کی پیشی پر سیکیورٹی کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کر دی۔

عدالت عالیہ نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کل عدالتی وقت تک معطل کرتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔

عدالت نے کہا کہ عمران خان کو کل عدالت میں پیش ہونے کا موقع دیا جائے، ضلعی انتظامیہ اور اسلام آباد پولیس سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

سابق وزیراعظم نے وارنٹ منسوخی اور ملک بھر میں درج مقدمات میں گرفتاری سے پولیس کو روکنے کے لیے آج ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔

عمران خان عدالت آئیں گے، فواد چوہدری

اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان خود لاہور ہائی کورٹ آئیں گے اور جج کو یقین دلائیں گے کہ وہ اسلام آباد کی عدالت جانے کے لیے تیار ہیں، اس حوالے سے انڈرٹیکنگ بھی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری صرف عدالت میں ان کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے جاری کیے گئے تھے، وارنٹ کا مقصد عمران خان کی گرفتاری وارنٹ نہیں ہے، وارنٹ کا مقصد ان کی عدالت میں موجودگی یقینی بنانا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم نے حلف نامہ بھی دیا ہوا ہے اور آج عمران خان خود عدالت میں پیش ہو کر اس بات کو عدالت کے سامنے بیان کریں گے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پولیس نے تین ہزار لوگوں کے خلاف ایف آئی آرز درج کر دی ہیں، آئی جی تقریباً 6 سے 7 ہزار لوگ گرفتار کرنا چاہتا ہے، یہ سیدھی سیدھی انتقامی کارروائی ہے، اس سے پاکستان بھر میں ماحول خراب ہو جائے گا۔

زمان پارک آپریشن روکنے کے حکم میں 3 بجے تک توسیع

قبل ازیں توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے لیے آپریشن روکنے کی درخواست پر سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے زمان پارک آپریشن روکنے کے حکم میں 3 بجے تک توسیع کردی۔

زمان پارک پولیس آپریشن روکنے کی فواد چوہدری کی درخواست پر جسٹس طارق سلیم شیخ سماعت کر رہے ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پچھلے دو دنوں میں آپ نے پاکستان کو اور لاہور کو بحران سے بچایا ہے، لوگوں کی زندگیاں آپکی مداخلت سے بچی ہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا آئی جی پنجاب نے بھی اچھا کردار ادا کیا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم نے کل آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری پنجاب سے ملاقات کی، ہم نے عمران خان کی سیکیورٹی پر بات چیت کی، پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ ہم عمران خان کو قانون کے مطابق سیکیورٹی دیں گے، دوسرا معاملہ اتوار کے جلسے کا تھا ہم پیر کے روز لاہور میں جلسہ کریں گے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ہم ریلی نہیں نکالیں گے، ہم جلسے کے لیے پانچ دن پہلے انتظامیہ کو آگاہ کریں گے، عمران خان کی حفاظتی ضمانت دائر ہو گئی ہے، ہماری استدعا ہے کہ آئی جی ہمارے کارکنان کو گرفتار نہ کریں، عدالت نے کہا کہ جن لوگوں نے زیادتی کی وہ ادھر سے یا دوسری طرف سے ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ، اب تو کیمرے لگے ہیں چہرہ صاف نظر آ جاتا ہے، آپ کی ساری باتوں میں ایک لیگل ایشو ہے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ دو معاملے ہیں کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ میں ہے، اس مرحلے پر ہم کیسے حفاظتی ضمانت سن سکتے ہیں، وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان حفاظتی ضمانت کے لیے آپ کے پاس آئیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ہو سکتا ہے وہ کیس میرے پاس نہ بھی آئے۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہمارا فیصلہ ہوا ہے کہ تحریک انصاف کا ایک فوکل پرسن ہو گا، ہم نے کہا ہے کہ کسی علاقے کو نو گو ایریا نہیں بننے دیا جائے گا، عدالت نے فواد چوہدری سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ لوگوں کو سیکیورٹی نہیں ملتی تو آپ آئی جی کو درخواست دیں جو ایک طریقہ کار ہے، اگر آپ مطمئن نہیں ہوتے تو عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ کینٹیرز لگانا مناسب نہیں یہ ہمیں برآمدات کے لیے استعمال کرنے چاہیے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ جو بھی چاہتے ہیں اس کو طریقہ کار کے مطابق کریں اور باقاعدہ درخواست دیں۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ اگر ہمیں سرچ وارنٹ کی تعمیل کرانی ہے تو اس پر بھی عدالت حکم جاری کرے، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے مؤقف اپنایا کہ پولیس کی قانونی معاملات پورے کرنے کے لیے زمان پارک تک رسائی نہیں ہے، فواد چوہدری نے کہا کہ یہ لوگوں کو گرفتار کرنے کے لیے اجازت مانگ رہے ہیں انہوں نے ایک ایف آئی ار 2500 لوگوں کے خلاف درج کر دی ہے۔

وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ دو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے ہیں ایک عمران خان اور ایک رانا ثنااللہ کے خلاف، آئی جی پنجاب یہ بتائیں یہ کیا طریقہ کار رانا ثنااللہ کے وارنٹ کی تعمیل کیوں نہ ہوئی، اس معاملے میں پولیس کی بدنیتی شامل ہے، میں یقین دہانی کراتا ہوں عمران خان یہاں پیش ہوں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ فرض کریں کہ ایک سول جج سے سمن آیا ہے تو آپ کیسے اس کی تعمیل کرائیں گے، وکیل عمران خان نے کہا کہ تعمیل کا قانون موجود ہے ۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ کی تعمیل ہو گی یا نہیں ہو گی یہ تب فیصلہ ہو گا جب پراسس سرور متعلقہ جگہ پر پہنچے گا، یہ تو نہر سے آگے جا ہی نہیں پا رہے، مہذب قوموں میں ایسا نہیں ہوتا۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم نے جائے وقوع کا وزٹ کرنا ہے ہمیں اجازت دی جائے، فواد چوہدری نے کہا کہ ہم انہیں اجازت دے دیتے ہیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی، آپ سب لوگ بیٹھ کے مسئلے کا حل نکالیں۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم جو بھی کریں گے عدالت کو بتائیں گے انتقامی کارروائی بالکل نہیں ہو گی، ہم جس کو گرفتار کریں گے ان کے ساتھ قانون کی تحت برتاؤ ہو گا، عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ ان کو کیسے مطمئن کیسے کریں گے، آپ اس سارے معاملے میں شفافیت کیسے لائیں گے۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں ان سے اجازت نہیں لوں گا کہ فلاں بندے نے پولیس پر پیٹرول بم مارا ہے ہم اسے گرفتار کرنے لگے ہیں، فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے کیپمین کیا کرنی ہے ہم تو اپنی روٹین کی زندگی نہیں گزار پا رہے، آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں یہ نہیں کر سکتا ہے کہ ثبوت لے کر ملزم کو کہوں جا بیٹا ضمانت کرا لے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آئی جی صاحب کہہ رہے ہیں کہ قانون کو اپنا راستہ بنانا چاہیے۔

عدالت نے فواد چوہدری سے مکالمہ کیا کہ عمران خان کی سیکیورٹی کے معاملے پر آپ لوگ متعلقہ حکام کو درخواست دے سکتے ہیں، عدالت نے ریمارکیس دیے کہ فریقین آپس میں بیٹھ کر حل نکالیں، آئی جی پنجاب نے کہا کہ اسلام آباد سے وارنٹ منسوخ کی درخواست خارج ہو چکی ہے، عدالت اس بارے فیصلہ کر دیے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس یہ کیس نہیں ہے، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ 3 بجے دوبارہ کیسے سنیں گے۔

لاہور ہائی کورٹ نے سماعت تین بجے تک ملتوی کرتے ہوئے زمان پارک آپریشن روکنے کے حکم میں تین بجے تک توسیع کردی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت بائیو میٹرک نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوگئی، عدالتی ہدایت پر لاہور سے ہی عمران خان کی بائیو میٹرک کرائی جارہی ہے، بائیو میٹرک سلپ آنے کے بعد ہی عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوگی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک میں آپریشن روکنے کا گزشتہ روز جاری کیا گیا حکم آج (بروز جمعہ) تک برقرار رہے گا۔

جمعے کے روز زمان پارک کے باہر موجود ڈان ڈاٹ کام کے نمائندے نے بتایا کہ سابق وزیراعظم کی رہائش گاہ کے ارد گرد علاقے میں پولیس کہیں موجود نہیں جب کہ عمران خان کے گھر کے باہر پی ٹی آئی کے متعدد حامی موجود ہیں جنہوں نےکسی بھی ممکنہ پولیس آپریشن کی مزاحمت کرنے کے لیے لاٹھیاں اور پتھر اٹھائے ہوئے ہیں۔

عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے وارنٹ منسوخی اور ملک بھر میں درج مقدمات میں گرفتاری سے پولیس کو روکنے کے لیے دائر درخواستیں آج ہی سماعت کے لیے مقرر کردیں۔

عمران خان نے ملک بھر میں درج مقدمات میں گرفتاری سے روکنے کے لیے اسلام آبادہائیکورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ پی ڈی ایم حکومت کے آتے ہی ملک بھر میں روزانہ مقدمات درج ہورہےہیں، وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا، جان کو شدید خطرات ہیں، پورے ملک میں درج مقدمات کا ریکارڈ دیں۔

عمران خان نے اسلام آبادہائیکورٹ سے استدعا کی کہ پولیس کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتاری سے روک دیں، درخواست میں سیکرٹری داخلہ، چاروں صوبوں کے آئی جی پولیس اور ڈی جی ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔

عمران خان نے اپنے خلاف کیسز کی تفصیلات فراہمی کی پٹیشن بھی فائل کردی۔

رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ آفس نے سابق وزیراعظم کی وارنٹ منسوخی، درج مقدمات میں گرفتاری سے روکنے کی درخواستوں پر اعتراضات عائد کیے۔

عمران خان کی دونوں پٹشنز پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات عائد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا بائیو میٹرک نہیں ہے، جس معاملے پر پہلے ہائیکورٹ فیصلہ کر چکی، اسے دوبارہ کیسے سن سکتی ہے، رجسٹرار آفس نے اعتراض کیا کہ کسی پٹیشن پر کیسے ’بلیکنٹ آرڈر‘ جاری کیا جا سکتا ہے؟

بعد ازاں عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کردی گئی، عمران خان کے خلاف درج مقدمات کی تفصیل فراہمی کے لیے دائر درخواست پر بھی سماعت ہو گی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کچھ دیر بعد سماعت کریں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست خارج کردی تھی اور انہیں 18 مارچ کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم برقرار رکھا گیا تھا، اس سے ایک روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کے لیے دائر درخواست خارج کردی تھی۔

پی ٹی آئی، حکومت پنجاب نے ریلیوں، سیکیورٹی، قانونی معاملات پر ٹی او آرز طے کرلیے

پی ٹی آئی اور حکومت پنجاب کے درمیان ریلیوں، سیکیورٹی اور قانونی معاملات کے طے ٹی او آرز کے مطابق تحریک انصاف ورانٹ کی تکمیل، سرچ ورانٹ کے لیے پولیس کے ساتھ تعاون کرے گی۔

معاہدے کے مطابق پی ٹی آئی لیڈر شپ کی جانب سے شبلی فراز اور علی خان کو فوکل پرسن نامزد کیا ہے، پولیس کی جانب سے ایس ایس پی عمران کشور فوکل پرسن ہوں گے، پی ٹی آئی چودہ اور پندرہ مارچ کو درج ہونے والے مقدمات میں تفتیش میں تعاون کرے گی، تحریک انصاف اتوار کی بجائے پیر کے روز جلسہ کرے گی۔

معاہدے کے مطابق جلسے کی اجازت کے لیے انتظامیہ سے رابطہ کیا جائے گا، تحریک انصاف ریلی نکالنے سے کم از کم پانچ دن پہلے اگاہ کرے گی، عمران خان کی سکیورٹی کے لیے بنائی گی گائیڈ لائن پر عمل ہوگا، تحریک انصاف سکیورٹی کے لیے متعلق حکام کو درخواست دے گی۔

معاہدے کے مطابق سکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ معاملات کے لیے فوکل پرسن شبلی فراز ہونگے، معاہدہ لاہور ہائی کورٹ میں 3 بجے جمع کرایا جائے گا۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ کل پنجاب انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد معاملات کے حل پر اتفاق ہوا ہے، آج لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس طارق شیخ صاحب کی عدالت میں متفقہ حل دے دیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کو اتوار کو جلسہ کرنے سے روکتے ہوئے کہا تھا کہ آپ لوگ آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری کے ساتھ بیٹھیں اور میکانزم بنائیں، آپ سب مل کر اس معاملے کا حل نکالیں اور سسٹم کو چلنے دیں، اگر جلسہ کرنا ہے تو پندرہ دن پہلے پلان کریں، کوئی شادی بھی کرتا ہے تو پہلے پلان کرتا ہے، خدا کا واسطہ ہے سسٹم کو چلنے دیں۔

عمران خان کی گرفتاری کی کوشش

واضح رہے کہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پیر کو توشہ خانہ ریفرنس میں مسلسل عدم حاضری پر پی ٹی آئی سربراہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

عدالت نے پولیس کو سابق وزیراعظم کو گرفتار کرکے 18 مارچ تک عدالت میں پیش کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔

عدالت کی جانب سے جاری کردہ ’وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد‘ کے لیے آپریشن منگل کی دوپہر کو شروع ہوا تھا جب پولیس اہلکار بکتر بند گاڑی میں عمران خان کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔

اسلام آباد کے ڈی آئی جی شہزاد ندیم بخاری کی قیادت میں پولیس نے مزاحمت کرنے والے پارٹی حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا، تاہم پی ٹی آئی کارکنوں نے پتھراؤ کیا۔

پولیس ٹیم آپریشن مکمل کرنے کے لیے پرعزم تھی، بعد ازاں زخمی ہونے والے ڈی آئی جی بخاری نے واضح الفاظ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے آئے ہیں اور آج انہیں ہر قیمت پر گرفتار کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی رضاکارانہ گرفتاری کے امکان کی پیشکش کر کے آپریشن کے پہلے مرحلے سے بچ گئی تھی لیکن یہ ایک تاخیری حربہ تھا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے حامیوں کا ہجوم بڑھتا ہی گیا۔

بعد ازاں پی ٹی آئی کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے درمیان تصادم کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا اور حکومت پنجاب نے کہا کہ کارروائی میں 58 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں