ایک بھارتی سفارتکار نے کہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو کبھی نہیں روکا اور وہ آگے بڑھ کر کاروباری تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بات کرتے ہوئے بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر سریش کمار نے زور دیا کہ آج کی سفارت کاری سیاحت، تجارت اور ٹیکنالوجی پر مرکوز ہے کیونکہ ’پیسہ اپنی زبان بولتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے کیونکہ ہم جغرافیہ کو تبدیل نہیں کرسکتے۔

بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر نے دعویٰ کیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں، ہم نے پاکستان کے ساتھ تجارت بھی نہیں روکی، یہ پاکستان نے روکی تھی، یہ دیکھنا بہتر ہوگا کہ ہم اپنے مسائل اور حالات کو کیسے بدل سکتے ہیں۔

انہوں نے اتفاق کیا کہ بھارتی سفارت خانے کی جانب سے پاکستانیوں کو کووڈ-19 کے دوران کم ویزے جاری کیے گئے، تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ اب اس تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ ہر سال 30 ہزار ویزے جاری کیے جارہے ہیں، جو ان کے مطابق ’بڑی تعداد‘ ہے۔

سریش کمار نے بتایا کہ بھارتی حکومت پاکستانیوں کو میڈیکل اور اسپورٹس کے ویزے بھی دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ دن چلے گئے جب سفارت کاری میں سیاسی رپورٹس مرتب کرنے پر توجہ دی جاتی تھی، آج کی سفارت کاری دہشت گردی، تجارت اور ٹیکنالوجی کے گرد گھومتی ہے ’کیونکہ پیسے کی اپنی زبان ہوتی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی چین کے ساتھ 120 ارب ڈالر کی تجارت ہے، جس میں توازن تجارت چین کے حق میں ہے، سفارت کار نے زور دیا کہ درآمدات ہمیشہ غلط نہیں ہوتیں ان کے فوائد بھی ہوتے ہیں۔

سریش کمار نے کہا کہ دانشورانہ ملکیت کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے، دور دراز ممالک میں بیٹھ کر اور دیگر ممالک میں مینوفیکچرنگ کرکے یورپ دانشورانہ ملکیت کے حقوق کی وجہ سے پیسے کما رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں یونیورسٹیوں میں ٹیکنالوجی پر توجہ دی جاتی ہے

ان کا کہنا تھا کہ راہداری تجارت کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ وسطی ایشیا بڑی منڈی ہے اور بھارت کو رسائی کی ضرورت ہے، اسی طرح وسطی ایشیا کو بھی بھارت تک رسائی کی ضرورت ہے۔

ڈپٹی ہائی کمشنر نے کہا کہ بھارت دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک بننے کی راہ پر گامزن ہے، ہمارے خدمات کے شعبے نے بڑی ترقی کی ہے اور اب ہماری توجہ مینوفیکچرنگ کی طرف ہے۔

لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان معاشی تعلقات کو بہتر بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے سیاسی، معاشی اور سماجی عوامل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا لیکن ہمارا خیال ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان معاشی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جو اولین قدم اٹھایا جا سکتا ہے وہ تجارتی تعلقات کو معمول پر لانا ہے، اس سے دونوں ممالک کو یکساں طور پر خاطر خواہ اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں