توشہ خانہ کیس:عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکس کے باہر حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت، وارنٹ گرفتاری منسوخ

عمران خان عدالت میں پیشی کے بغیر واپس چلے گئے—فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان عدالت میں پیشی کے بغیر واپس چلے گئے—فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز
عمران خان قافلے کی صورت میں براستہ موٹروے اسلام آباد پہنچیں گے—فوٹو: ٹوئٹر / پی ٹی آئی
عمران خان قافلے کی صورت میں براستہ موٹروے اسلام آباد پہنچیں گے—فوٹو: ٹوئٹر / پی ٹی آئی
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کی نفری وہاں گئی تو دوبارہ شدید مزاحمت کی گئی—فوٹو:ڈان نیوز
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کی نفری وہاں گئی تو دوبارہ شدید مزاحمت کی گئی—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو: ٹوئٹر/پی ٹی آئی
—فوٹو: ٹوئٹر/پی ٹی آئی
عمران خان قافلے کی صورت میں براستہ موٹروے اسلام آباد پہنچیں گے—فوٹو: ٹوئٹر / پی ٹی آئی
عمران خان قافلے کی صورت میں براستہ موٹروے اسلام آباد پہنچیں گے—فوٹو: ٹوئٹر / پی ٹی آئی
عمران خان قافلے کی صورت میں براستہ موٹروے اسلام آباد پہنچیں گے—فوٹو: ٹوئٹر / پی ٹی آئی
عمران خان قافلے کی صورت میں براستہ موٹروے اسلام آباد پہنچیں گے—فوٹو: ٹوئٹر / پی ٹی آئی
عمران خان قافلے کی صورت میں براستہ موٹروے اسلام آباد پہنچیں گے—فوٹو: ٹوئٹر / پی ٹی آئی
عمران خان قافلے کی صورت میں براستہ موٹروے اسلام آباد پہنچیں گے—فوٹو: ٹوئٹر / پی ٹی آئی

اسلام آباد کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے کشیدگی کے باعث توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پٌی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکش کے باہر حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت دیتے ہوئے ان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیے اور فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔

توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے جب سابق وزیراعظم عمران خان کمرہ عدالت میں نہیں پہنچے تو جج ظفراقبال نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ سماعت معمول کے مطابق ہونی چاہیے، صورت حال یہ ہے تو کیا کریں آپ ہی بتائیں۔

عمران خان کے وکیل بابراعوان نے جج سے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ نائب کورٹ کو باہر بھیج کر عمران خان کی حاضری لگانے کی اجازت دی جائے، جو حالات ہیں اس کے پیش نظر حاضری سے استثنیٰ دیا جانا چاہیے۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی کا ایک کارکن کمرہ عدالت میں گھس آیا اور کہا کہ میں لاہور سے ان کے ساتھ رابطہ کرتا آرہا ہوں، ان پر پتھراؤ ہوا اور انہوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔

بابراعوان نے عدالت سے کہا کہ باہر بہت گڑبڑ ہے، آپ میری بات مان لیں آج استثنیٰ دے دیں، جس پر عدالت نے نائب کورٹ کو گیٹ پر عمران خان کے دستخط لینے کا حکم دے دیا۔


اہم پیش رفت

  • جج ظفراقبال نے عمران خان پر توشہ خانہ کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے سماعت 30 مارچ تک ملتوی کردی۔
  • عدالت نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیے۔
  • جج ظفراقبال نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکس کے باہر حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت دے دی۔
  • پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کی ایک دوسرے پر پتھراؤ اور شیلنک کا الزام
  • پی ٹی آئی کے سیکیورٹی خدشات کے سبب توشہ خانہ کیس کی سماعت جوڈیشل کمپلیکس منتقل کردی گئی۔
  • اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ، سیکیورٹی کے سخت انتظامات
  • پی ٹی آئی نےجوڈیشل کمپلیکس میں پارٹی اراکین کے داخلے پر پابندی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کردی۔

جج ظفراقبال نے کہا کہ گیٹ پر ہی دستخط لے لیں، یہی حاضری تصور ہوگی، آج سماعت واقعی ممکن نہیں ہے، دستخط ہوجائیں، پھر بات کرلیں گے اور اگلی تاریخ طے ہوگی، عمران خان کے دستخط ہونے کے بعد سب منتشر ہوجائیں۔

جج ظفراقبال نے کہا کہ عمران خان سے دستخط لیں اور انہیں کہیں یہاں سے چلے جائیں، اس دوران وکیل انتظار پنجوتا نے عدالت سے شکایت کی کہ ہمیں مارا جا رہا ہے، شبلی فراز کو ایس پی نوشیروان نے پکڑ لیا ہے۔

اس موقع پر عدالت نے شبلی فراز کو پیش کرنے کا حکم دے دیا اور پولیس نے شبلی فراز کو عدالت میں پیش کر دیا، جس کے بعد شبلی فراز، ایس پی اور نائب کورٹ کے ساتھ عمران خان کے دستخط لینے چلے گئے۔

عدالت نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ فرد جرم کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں، کیا آج آپ بحث کرنا چاہتے ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نہیں آج تو ممکن نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میں خواجہ صاحب کے ساتھ ساری رات جاگتا رہا ہوں، میں مریم نواز کا وکیل تھا اور خواجہ حارث نواز شریف کے وکیل تھے۔

خواجہ حارث نے بتایا کہ فرد جرم عائد ہونے سے قبل درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل ہوں گے، درخواست قابل سماعت ہونے کے بعد فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دستخط ہونے تک سماعت ملتوی کردی۔

بعد ازاں پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز کے ساتھ جانے والے ایس پی کمرہ عدالت پہنچے تو جج نے آرڈر شیٹ کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آرڈر شیٹ شبلی فراز صاحب کے پاس تھی۔

بیرسٹر گوہر نے روسٹرم پر کہا کہ میں ایس پی صاحب اور شبلی فراز کے ساتھ حاضری کے لیے گیا تھا اور میں نے عمران خان سے دستخط کروائے، واپسی پر ہم پر شیلنگ ہوئی اور ایس پی صاحب نے مجھ سے فائل لے لی، اب ایس پی صاحب عدالت کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس تمام واقعے کی متعدد وڈیوز بھی موجود ہیں، ایس پی ڈاکٹر سمیع ملک نے عدالت کو بتایا کہ اسی وقت شیلنگ اور پتھراؤ شروع ہوگیا، میں نے اپنا رومال بھی نکال کر شبلی فراز کو دیا۔

جج ظفراقبال نے کہا کہ یہ بہت اہم دستاویز ہے، اس کو ڈھونڈ کر لائیں، ہمارے جوڈیشل ریکارڈ کا حصہ ہے۔

ایس پی سمیع ملک نے بیرسٹر گوہر کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے فائل شبلی فراز کے حوالے کی تھی جبکہ بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ عمران خان کے دستخط کی ویڈیو سب نے بنائی کہ وہ دستخط کر رہے ہیں جبکہ شبلی فراز کو عدالت پہنچے میں تاخیر ہوئی۔

سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ایس پی نے کہا کہ میں زخمی ہو کر گر گیا تھا، جس پر جج ظفراقبال نے کہا کہ بس چھوڑ دیں، یہ بتا دیں دستخط ہو گئے تھے، ایس پی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم دستخط ہوئے یا نہیں۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ان کا بیان ریکارڈ کریں، یہ سمجھتے ہیں ان کی نوکری بہت پکی ہے، یہ 3 بار بیان بدل چکے ہیں۔

ایس پی سمیع ملک نے کہا کہ میں جان بوجھ کر فائل کیوں گھماؤں گا جبکہ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارے پاس اس سب کی ویڈیو ہے، جب دستخط ہوئے تو سب نے پی ٹی آئی کے نعرے لگائے، تمام کاغذات پر عمران خان دستخط تھے۔

عدالت نے دونوں فریقین کو تحریری بیان دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں اپنا اپنا بیان لکھ کر جمع کرائیں کہ کیا ہوا، عدالتی دستاویز کی گمشدگی کا کوئی حل نکالتے ہیں۔

ایڈیشنل اینڈ سیشن جج ظفراقبال نے سابق وزیراعظم عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کیے اور سماعت 30 مارچ تک ملتوی کردی اور عمران خان کو اگلی سماعت میں ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

اس سے قبل پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین عمران خان نے اے آر وائی نیوز کو بتایا تھا کہ ’تمام قانونی اقدامات پورے کر لیے گئے‘ اور عمران خان اب جوڈیشل کمپلیکس سے واپس روانہ ہو رہے ہیں۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد ان پر فوجداری مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اسلام آباد کی ایڈیشنل اینڈ سیشن عدالت نے 31 جنوری کو مذکورہ کیس میں عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا اور سماعت مقرر کی لیکن عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان جب عدالت میں پیش نہیں ہوئے تو ان کے ناقابل وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے تھے۔

اس سے قبل عدالت میں موجود ڈان ڈاٹ کام کے رپورٹر نے تصدیق کی کہ آنسو گیس اور کھڑکیوں پر پتھراؤ کی وجہ سے کمرہ عدالت کے اندر لوگوں کو مشکل پیش آرہی تھی۔

عمران خان اور اس کا قافلہ اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پہنچا تو انہوں نے الزام عائد کیا کہ انہیں کمرہ عدالت میں پیش ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

جوڈیشل کمپلیکس کے باہر سے آڈیو پیغام میں عمران خان نے کہا کہ ’میں 15 سے دروازے کے باہر کھڑا ہوں اور کوشش پوری کر رہا ہوں لیکن انہوں نے آنسو گیس کی شیلنگ کی، جگہ جگہ ناکے اور کنٹینرز لگائے، ایسا لگتا ہے یہ چاہتے نہیں تھےکہ میں یہاں پہنچوں‘۔

انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود میں باہر کھڑا ہوں اور اندر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی جانب سے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پتھراؤ کیا جا رہا ہے، اسلام آباد پولیس کا دعویٰ

توشہ خانہ کیس کی سماعت میں پیشی کے لیے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پہنچی تھی تو پولیس نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا ہے۔

اسلام آباد پولیس نے کہا کہ عمران خان صاحب کا قافلہ جوڈیشل کمپلیکس کے عین سامنے موجود ہے، سیاسی کارکنان سے گزارش ہے کہ راستہ صاف کریں تاکہ عمران خان عدالت پہنچ سکیں۔

کیپیٹل پولیس نے کہا کہ مظاہرین کی جانب سے جوڈیشل کمپلیکس پر شیلنگ کی جا رہی ہے، پولیس کی چوکی کو آگ لگا دی ہے۔

پولیس نے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پی ٹی آئی کے اراکین کی جانب سے کی جانے والی توڑ پھوڑ کی فوٹیجز بھی جاری کیں۔

اسلام آباد پولیس نے کہا کہ پی ٹی آئی مظاہرین کی طرف سے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر شدید ہنگامہ آرائی کی گئی، مظاہرین کے پتھراؤ سے 9 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جنہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ مشتعل مظاہرین نے 25 سے زائد موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں جلادیں۔

اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ مشتعل مظاہرین نے بم ڈسپوزل اسکواڈ کی گاڑی کی توڑپھوڑ کی، پولیس چوکی اور درختوں کو بھی آگ لگا دی اور پولیس پر پیٹرول بموں سے حملہ کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ مظاہرین کی طرف سے پولیس پر ٹئیر گیس شیلز چلائے گئے۔ مظاہرین لگاتار مختلف اطراف سے پولیس اہلکاروں پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔

اسلام آباد پولیس نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

پولیس نے بتایا کہ زخمیوں میں ایس ایس پی آپریشنز ملک جمیل احمد ، ایس پی صدر نوشیروان علی، ایس پی رورل حسن جہانگیر، ایس پی پلان اینڈ پیٹرول ڈاکٹر سمیع ملک بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب ٹوئٹر پر جاری بیان میں پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ پولیس کی جانب سے سری نگر ہائی وے پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر ہیوی شیلنگ کی جا رہی ہے۔

زمان پارک سے دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے، رانا ثنااللہ

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زمان پارک سےدہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے، پیٹرول بم، بم بنانے کی چیزیں برآمد ہوئی ہیں، عمران خان فتنہ ہے، وہ ملک میں فساد اور افرا تفری کرنا چاہتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ زمان پارک کو نوگو ایریا کی حیثیت اختیار کر گیا تھا، وہاں آپریشن کیا گیا، وہاں سے کچھ ایسی چیزیں برآمد ہوئیں جو کبھی وزیرستان سے بر آمد ہوتی تھیں، اس حوالے سے آئی جی پنجاب کچھ دیر بعد حقائق قوم کے سامنے رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اشتعال دلانے کے باجود پولیس نے آج کا آپریشن بھی بغیر اسلحہ کے کیا گیا تاکہ انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے زمان پارک کی رہائش گاہ میں بغیر اجازت بم پروف بنکر بنایا ہوا تھا، وہاں تک پولیس ابھی نہیں گئی، جب وہ واپس گھر آئیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ وہاں کی تلاشی دیں، زمان پارک میں بم بنانے کی فیکٹری لگی ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ابھی ہم عمران خان کی گرفتاری کا سوچتے ہی ہیں کہ اتنے میں انہیں ریلیف مل جاتا ہے۔

اس حوالے سے عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’پنجاب پولیس نے زمان پارک میں میرے گھر پر حملہ کیا جہاں بشریٰ بیگم اکیلی ہیں، یہ کس قانون کے تحت کر رہے ہیں؟ یہ لندن پلان کا حصہ ہے جس میں ایک تعیناتی کے بدلے مفرور نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے وعدے کیے گئے تھے‘۔

قبل ازیں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ میرے تمام مقدمات میں ضمانت حاصل کرنے کے باوجود پی ڈی ایم حکومت مجھے گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، ان کے مذموم عزائم جاننے کے باوجود میں عدالت میں پیشی کے لیے اسلام آباد جا رہا ہوں کیونکہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں لیکن بدمعاشوں کے ناپاک ارادے سب پر واضح ہونا چاہئیں‘۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ لاہور میں میری رہائش گاہ کا محاصرہ کسی مقدمے میں میری عدالت میں حاضری کو یقینی بنانے کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد مجھے جیل بھیجنا تھا تاکہ میں اپنی انتخابی مہم کی قیادت نہ کر سکوں۔

انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’مجھے جیل میں ڈالنا لندن پلان کا حصہ ہے، یہ نواز شریف کی ڈیمانڈ ہے کہ عمران خان کو جیل میں ڈالو تاکہ وہ الیکشن میں حصہ نہ لے سکے‘۔

پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ لاہور میں پولیس زمان پارک میں عمران خان کے گھر کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئی ہے۔

پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر کاؤنٹ سے کی جانے والی ٹوئٹ کے مطابق عمران خان کی رہائش گاہ میں اس وقت صرف ان کی اہلیہ بشری بی بی اور ملازمین موجود ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق پنجاب پولیس کے اہلکار عمران کی رہائش گاہ کے داخلی دروازے سے رکاوٹیں ہٹا کر احاطے میں داخل ہوگئے، پولیس کو مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے ان پر اندر سے پتھراؤ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس نے اُن پر لاٹھی چارج ہوا، مبینہ طور پر کچھ کارکنوں کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق پولیس پی ٹی آئی سربراہ کے گھر کا دروازہ توڑ کر داخل ہوئی، اہلکاروں نے احاطے کے اندر قائم کیمپوں کو بھی اکھاڑ پھینکا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی جانب سے پولیس ٹیموں پر حملوں کی تحقیقات کے لیے عمران خان کی زمان پارک میں موجود رہائش گاہ کی تلاشی لینے کی درخواست منظور کی تھی۔

قبل ازیں زمان پارک کی پچھلی جانب گزرنے والی ٹھنڈی سڑک پر پولیس کی بھاری نفری پہنچ گئی تھی۔

پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں ڈنڈے جبکہ بکتر بند گاڑی بھی پولیس اہلکاروں کے ہمراہ موجود تھے۔

زمان پارک کی جانب آنے والے راستوں کو کنٹینرز لگا کر ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا تھا، پولیس کا زمان پارک کے باہر آپریشن کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا۔

قیدیوں کی گاڑی بھی مال روڈ کے قریب پہنچا دی گئی، کینال روڈ پر 2 کرینیں اور واٹر کینن بھی پہنچا دی گئی تھی۔

کارکنان کی بڑی تعداد ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے کینال روڈ پر نکل آئی جو پولیس سے مقابلے کے لیے پتھر اکٹھے کرنے لگے تھے۔

تحریک انصاف کا ملک گیر احتجاج کا عندیہ

تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے عدالت جا رہے تھے اور انہوں نے جیسے ہی لاہور کی حدود کراس کی اور اسلام آباد کے راستے میں ہی تھے کہ انہوں نے حملہ کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی رپورٹس یہ آرہی ہیں جو عدالت کے حکم پر لاہور سے اسلام آباد پہنچے ہیں ان کو ابھی تک حاضری کا موقع نہیں مل سکا کیونکہ ان کو پولیس والے روک لیتے ہیں، ہمارے لوگوں کو وہاں روک لیا گیا، ان پر تشدد کیا گیا، شیلنگ کی گئی، تو اسلام ٓباد سے لے کر لاہور تک پورا پاکستان غزہ اور فلسطین بنا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے یہ عدالتی احکامات کے بالکل خلاف ہے، ہم نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے کیونکہ انہوں نے عدالتی حکم کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ آئی جی پرسنل ہو رہا ہے اور آئی جی اور محسن نقوی کو لگتا ہے کہ اگر یہ حکومت آئے گی تو ظل شاہ کے قتل کا حساب ہو گا، یہ دونوں بہیمانہ قتل میں ملوث ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اس قتل سے بچنے کے لیے عمران خان اور تحریک انصاف سے ہر وہ طریقہ آزمائیں کہ یہ سیاست سے باہر ہو جائیں۔

انہوں نے کہا کہ آج کو کچھ ہوا ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں، ہورے ملک میں انتشار ہے، کارکنوں کا بہت پریشر ہے کہ فوری طور پر ملک گیر احتجاج شروع کیا جائے، ہم اپنی قیادت کے حکم کے منتظر ہیں اور اگر اجازت ملتی ہے تو پوری تحریک انصاف ملک گیر احتجاج کے لیے تیار ہے۔

آپریشن کا مقصد پولیس پر حملے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری ہے، عامر میر

نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کے لیے کیے گئے پولیس آپریشن کے دوران پی ٹی آئی کے شر پسند عناصر کی جانب سے پولیس پر حملے کیے گئے تھے، اس حوالے سے جو مقدمات درج تھے، ان کا ’نقشہ موقعہ‘ تیار کرنے کے لیے پولیس زمان پارک پہنچی تھی۔

انہوں نے کہا کہ حملوں میں ملوث جن ملزمان کی نشاندہی اور شناخت ہوچکی تھی، ان کی گرفتاری پولیس کے زمان پارک آپریشن کا دوسرا مقصد تھا۔

نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ آپریشن سے قبل ایس ایس پی نے پی ٹی آئی قیادت کو بھی آگاہ کردیا تھا جن کے ساتھ طے پایا تھا کہ ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کی تکمیل کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے تعاون کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کا عمل جاری ہے، ہمارا بنیادی مقصد زمان پارک کی نوگو ایریا حیثیت کو ختم کرنا ہے، اس میں کافی حد تک کامیابی ہوچکی ہے، گھنٹے بھر میں اسے کلیئر کردیا جائے گا، یہاں پر اندر مورچے بنے ہوئے ہیں، چھت سے پولیس والوں پر فائرنگ کی گئی ہے، پیٹرول بم پھینکے گئے ہیں، ان پر تقریبا قابو پالیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا گھر کے اندر رسائی حاصل نہیں کی جائے گی، 4 ، 5 کنال کا ایریا ہے جہاں کارروائی کی جا رہی ہے۔

عدالتی وقت ختم ہونے میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت باقی

دوسری جانب عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں پیشی کے لیے عدالتی وقت ختم ہونے میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے تاہم سابق وزیر اعظم اب تک عدالت کے روبرو پیش نہ ہوسکے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو عدالتی اوقات کے دوران سیشن عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس وقت عمران خان لاہور سے قافلے کے ہمراہ سری نگر ہائی وے پہنچ گئے ہیں۔

دریں اثنا اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے دعویٰ کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے قافلے کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی قانونی ٹیم اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے، جہاں انہوں نے اس معاملے سے متعلق درخواست دائر کی ہے، عمران خان کو حراست میں لینے کی کوئی بھی کوشش قانونی طور پر بلاجواز ہوگی۔

عمران خان کی گرفتاری کا خدشہ، پی ٹی آئی کا اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع

دریں اثنا عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے خدشے کے پیشِ نظر پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ ’عمران خان کی ممکنہ غیر قانونی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہماری پٹیشن جمع ہو گئی ہے اور ڈائری نمبر لگ گیا ہے‘۔

مذکورہ درخواست میں پی ٹی آئی کی جانب سے استدعا کی گئی ہے کہ نیب سمیت کسی بھی ادارے کو عمران خان کی گرفتاری سے روکا جائے۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان آج اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں پیش ہوں گے۔

پی ٹی آئی رہنما اور کارکنان کے ہمراہ عمران خان قافلے کی صورت میں براستہ موٹروے سری نگر ہائی وے پہنچ گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کی جانب سے سیکیورٹی خدشات اٹھائے جانے کے بعد حکومت نے گزشتہ روز توشہ خانہ کیس کی سماعت ایف-8 کچہری کے بجائے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد منتقل کر دی تھی۔

چیف کمشنر آفس اسلام آباد کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق عمران خان کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے جوڈیشل کمپلیکس جی-11 میں کمرہ نمبر ایک مختص کیا گیا ہے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ صرف ایک مرتبہ کے لیے کیس کی سماعت کی جگہ منتقل کی گئی ہے۔

عمران خان کے ساتھ عدالت جانے والے رہنماؤں کی لسٹ میں تبدیلی کرتے ہوئے رہنماؤں کی تعداد 6 سے بڑھا کر 14 کر دی گئی ہے۔

مذکورہ لسٹ میں اسد عمر، شبلی فراز، عمر ایوب، فواد چوہدری کے نام شامل ہیں، مراد سعید، عامر کیانی، پرویز خٹک اور اسد قیصر بھی عمران خان کے ساتھ عدالت جائیں گے۔

علاوہ ازیں عاطف خان، محمود خان، شاہ فرمان، وسیم شہزاد، علی نواز اعوان اور راجا خرم شہزاد کو بھی عدالت میں جانے کی اجازت دی گئی ہے، عمران خان کی حفاظت کے لیےکلوز پروٹیکشن ٹیم کے اہلکاروں کے نام شامل نہیں ہیں۔

اس حوالے سے جاری کردی ایس او پیز کے مطابق جوڈیشل کمپلیکس کے عملے کو اینٹری گیٹ پر کارڈ دکھائے بغیر داخلے کی اجازت نہیں ملے گی، جوڈیشل کمپلیکس میں دیگر افراد کا عدالت داخلہ ایڈمنسٹریٹیو جج کی اجازت سے مشروط ہوگا۔

سماعت کے لیے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز، نواز چوہدری، حمزہ الطاف اور گلزار احمد پیش ہوں گے جبکہ عمران خان کے وکلا خواجہ محمد حارث، بیرسٹر گوہر خان اور شیر افضل مروت بھی عدالت میں پیش ہوں گے۔

میڈیا کوریج پر پابندی

دریں اثنا پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نےجوڈیشل کمپلکس سمیت دیگر مقامات سے ہر قسم کی ریلی، جلسے اور اجتماع کی لائیو، ریکارڈڈ میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی ہے۔

پیمرا کی جانب سے جاری ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ عدم تعمیل کی صورت میں لائسنس پیمرا آرڈیننس کی متعلقہ شقوں کے تحت کسی اظہار وجوہ کے نوٹس کے بغیر چینل کا کینسل کردیا جائے گا۔

دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی آمد سے قبل جوڈیشل کمپلیکس میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی ہے۔

جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے پر پابندی کے خلاف درخواست

پی ٹی آئی نے سیشن کورٹ میں ایک درخواست جمع کرادی ہے جس میں وکلا، پارٹی کارکنان، میڈیا نمائندوں اور عمران خان کے سکیورٹی اہلکاروں کے جوڈیشل کمپلیکس کے احاطے میں داخلے سے مبینہ طور پر انکار کو چیلنج کیا گیا۔

سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے مبینہ طور پر متعدد افراد کو جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے سے روکے جانے کے بعد عمران کے وکیل بابر اعوان نے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کو درخواست جمع کرائی۔

درخواست میں ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان عدالت میں پیشی کیلئے لاہور سے روانہ ہوچکے، کچھ ہی دیر میں عدالت پہنچ جائیں گے، پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے سیکیورٹی کے نام پر پورے علاقے کی ناکہ بندی کررکھی ہے، وکلا، تحریک انصاف کے ذمہ داران اور میڈیا تک کو داخلے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

انہوں نے کہا کہ معزز ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود صورتحال نہایت سنگین اور قابلِ تشویش ہے، عمران خان کی ذاتی سیکیورٹی عملے کی راہ میں بھی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں، کھلی عدالت میں وکلا اور میڈیا کے داخلے پر پابندی کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں۔

درخواست میں استدعاکی گئی کہ معزز عدالت انتظامیہ کی ناقص اور ناقابلِ جواز پالیسی کا نوٹس لے اور وکلا اور میڈیا سمیت اہم افراد کے احاطہ عدالت میں داخلے کے احکامات صادر کرے۔

وکلا اور پولیس کے درمیان جھڑپ، پی ٹی آئی کارکنان گرفتار

دریں اثنا اسلام آباد پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کارکنان کی گرفتاری کے معاملے پر پولیس اور وکلا کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق سری نگرہائی وے سے جوڈیشل کمپلیکس جانے والے راستے پر پی ٹی آئی کارکنان مخلتف ٹولیوں کی صورت میں پہنچے تو اسلام آباد پولیس نے 15 سے 20 افراد کو گرفتار کرلیا۔

اس دوران وکلا نے پولیس کو گرفتاریوں سے روکنے کی کوشش کی جس پر پولیس اور وکلا کے درمیان جھڑپ ہوگئی، بعدازاں وکلا نے پولیس کے خلاف باقاعدہ احتجاج کیا اور نعرے بازی بھی کی۔

عمران خان کے قافلے میں شامل 3 گاڑیوں کو کلرکہار کے قریب حادثہ

عمران خان کے اسلام آباد کی جانب رواں دواں قافلے میں شامل 3 گاڑیاں تیز رفتاری کے سبب حادثے کا شکار ہوگئی ہیں۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی تینوں گاڑیوں تیز رفتاری کے سبب آپس میں ٹکرا گئیں، ایک گاڑی الٹنے سے 3 پی ٹی آئی کارکنان معمولی زخمی ہوگئی ہیں، تاہم پی ٹی آئی کا قافلہ معمول کی رفتار سے اسلام آباد کی جانب روان دواں ہے۔

پولیس اور ایف سی کے 4 ہزار جوان سیکیورٹی ڈیوٹی پر تعینات ہوں گے، اسلام آباد پولیس

اسلام آباد کے جی-11 میں جوڈیشل کمپلیکس کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں جہاں عمران خان کی آج دوپہر تک آمد متوقع ہے، پولیس کی بھاری نفری علاقے میں سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تعینات کر دی گئی ہے۔

پولیس کی بھاری نفری علاقے میں سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تعینات کر دی گئی ہے—فوٹو: عمر برنی
پولیس کی بھاری نفری علاقے میں سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تعینات کر دی گئی ہے—فوٹو: عمر برنی

اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران کیپیٹل پولیس، ایف سی اور پنجاب پولیس کے 4 ہزار جوان اور افسران جوڈیشل کمپلیکس میں سیکیورٹی ڈیوٹی پر تعینات ہوں گے۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب نے راولپنڈی میں دفعہ 144 نافذ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق شہر میں پرائیویٹ کمپنیوں، سکیورٹی گارڈز یا کسی شخص کے اسلحہ لے کر چلنے پر پابندی ہوگی۔

آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان نے میڈیا سے گفتگو کے دوران راولپنڈی سے پی ٹی آئی کارکنان کی آمد کے حوالے سے کہا کہ دفعہ 144 نافذ ہے، جتنا اس کام کو مشکل بنایا جائے گا اتنا ہی یہ سب کے لیے باعث زحمت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری سب سے درخواست ہے کے پولیس کے کام میں اور عمران خان کی متوقع پیشی کے حوالے سے ہمارے ساتھ تعاون کریں تاکہ یہ کام بخیروعافیت ہوجائے اور کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔

پولیس کی دہشت گردی قبول نہیں، فواد چوہدری

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ انتظامات کے نام پر پولیس کی دہشت گردی قبول نہیں۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’اسلام آباد کے اندرونی راستے فوری طور پر کھولے جائیں، ملک میں آئین اور قانون کی کوئی گنجائش رہنے دیں، عدالتی راستے کو غزہ بنا دیا گیا ہے‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ میں فوری رٹ فائل کر رہے ہیں، انتظامی انتظامات کے نام پر پولیس کی دہشت گردی قبول نہیں‘۔

پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ’موٹروے ٹول پلازہ تقریباً سارا کنٹینررز کھڑے کرکے بند کردیا گیا ہے صرف 2 لینز کھلی ہیں جہاں سے لوگ باہر نکل سکتے ہے، پنجاب پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے‘۔

دریں اثنا پی ٹی آئی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جی-11 جوڈیشل کمپلیکس کے تمام داخلی راستوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’وکلا کو بھی داخلے سے منع کیا جا رہا ہے، واضح ہے کہ اسلام آباد پولیس اس حکومت کے غیر قانونی احکامات پر عمل کرنے کے لیے تیار کھڑی ہے‘۔

دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے واضح کیا کہ ’اسلام آباد کے تمام اندرونی راستے کھلے ہوئے ہیں، جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف میں سیکیورٹی کے پیش نظر خصوصی اقدامات عمل میں لائے گئے ہیں‘۔

اسلام آباد پولیس کےآفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’سیکیورٹی کے حوالے سے معمول کے اقدامات کیے گئے ہیں، سیاسی ورکروں سے گذارش ہے کہ غیر معمولی سنسنی خیزی اور خوف ہراس پھیلانے سے گریز کیا جائے‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ شب اسلام آباد میں بھی دفعہ 144 نافذ کردیا گیا تھا، اسلام آباد پولیس کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق پرائیویٹ کمپنیوں، سکیورٹی گارڈز یا کسی شخص کے اسلحہ لے کر چلنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

ٹوئٹ کے مطابق گاڑی چلاتے وقت اپنی گاڑی کاملکیتی ثبوت ساتھ رکھیں، ٹریفک پلان جاری کردیاگیا ہے، شہری جی الیون ون اور جی ٹین ون کی طرف غیر ضروری نقل وحرکت سے گریز کریں۔

ٹوئٹ میں ہدایت دی گئی کہ شہری شناختی دستاویزات ہمراہ رکھیں اور چیکنگ کے دوران پولیس کے ساتھ تعاون کریں، شہری کسی بھی مشکوک سرگرمی کے متعلق اطلاع فوری پکار 15 پر دیں۔

اسلام آباد کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ

دریں اثنا اسلام آباد کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، اسلام پولیس کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے شہریوں کو ہدایت دی گئی کہ ’ایمبولینس اور آگ بجھانے والی گاڑیوں کو راستہ دیں‘۔

ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’خواتین ، بچوں اور بزرگوں کا خیال رکھیں، عوام سے گذارش ہے کہ پرامن رہیں اور پولیس سے تعاون کریں، پودوں اور درختوں کا نقصان مت پہنچائیں‘۔

ٹوئٹ میں مزید ہدایت دی گئی کہ ’جن افراد نے گاڑیاں سڑک پر پارک کی ہیں ان سے گذارش ہے کہ گاڑیاں محفوظ مقام پر کھڑی کریں، نجی املاک کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، عوام سے گذارش ہے کہ سری نگر ہائی وے کو آمدورفت کےلیے کھلا رکھیں‘۔

پسِ منظر

خیال رہے کہ گزشتہ روز (17 مارچ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی درخواست پر سماعت کی جس میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت کی جانب سے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری کو معطل کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

ایک روز قبل ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے وارنٹ کی معطلی کے لیے عمران خان کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی تھی کہ وہ اپنے طرز عمل کی وجہ سے کسی رعایت کے حقدار نہیں ہیں۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے درخواست پر اعتراض اٹھایا کہ عمران خان نے بائیو میٹرک تصدیق نہیں کی اور درخواست قابل سماعت نہیں تھی تاہم رجسٹرار آفس نے یہ معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھا۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث احمد نے نشاندہی کی کہ بائیو میٹرک کر لیا گیا ہے اور جلد ہی رسید فراہم کر دی جائے گی۔

انہوں نے استدلال کیا گیا کہ درخواست کے قابل اعتراض ہونے پر اعتراض اس نوعیت کا ہے جس کا فیصلہ عدالت کی جانب سے کیا جا سکتا ہے، درخواست میں کہا گیا کہ یہ معاملہ فوری نوعیت کا ہے اس لیے اسے فوری طور پر سنا جائے، بعدازاں جسٹس عمرا فاروق نے درخواست پر اعتراضات دور کر دیے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے غلط وجوہات کی بنا پر وارنٹ معطل کرنے کی درخواست مسترد کردی، انہوں نے کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کو پیش کیا گیا حلف نامہ اس یقین دہانی کے ساتھ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا تھا کہ انڈرٹیکنگ حقیقی اور مستند ہے لیکن یہ اقدام ٹرائل کورٹ کو گرفتاری کے وارنٹ واپس لینے پر آمادہ نہ کر سکا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا تحریری یقین دہانی اب بھی موجود ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ جی اس وقت بھی 18 مارچ کو پیش ہونے کی یقین دہانی موجود ہے، اگر عدالت وارنٹ معطل کر دے تو کل عمران خان پیش ہو جائیں گے، اصل بیانی حلفی ٹرائل کورٹ میں جمع کر چکے ہیں، جو یہاں جمع کر رہے ہیں یہ کاپی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انڈر ٹیکنگ کی خلاف ورزی کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ ہر صورت میں میرے مؤکل کل عدالت کے سامنے پیش ہوں گے۔

بعدازاں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو عمران خان کو ٹرائل کورٹ میں پیشی کے دوران گرفتار کرنے سے روک دیا لیکن ساتھ ہی ہدایت کی کہ ’عمران خان بھی یہ یقینی بنائیں کہ ان کی ٹرائل کورٹ کے سامنے پیشی پر اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال خراب نہ ہو‘۔

انہوں نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ وہ درخواست گزار اور تمام متعلقہ افراد کو مناسب سیکیورٹی کی فراہمی کو یقینی بنائیں، اس حوالے سے پولیس اور ضلعی انتظامیہ ایس او پیز طےکرے گی اور محدود افراد کو داخلے کی اجازت دینے کے لیے پیرامیٹرز مرتب کرے گی۔

عدالت نے وفاقی دارالحکومت میں عمران خان کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کرنے کی درخواست پر آئی جی اسلام آباد کو بھی نوٹس جاری کیا۔

بعدازاں عدالت عالیہ نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری آج عدالتی وقت تک معطل کرتے ہوئے سماعت منگل (21 مارچ) تک ملتوی کر دی۔

عمران خان کی گرفتاری کی کوشش

واضح رہے کہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پیر کو توشہ خانہ ریفرنس میں مسلسل عدم حاضری پر پی ٹی آئی سربراہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

عدالت نے پولیس کو سابق وزیراعظم کو گرفتار کرکے 18 مارچ تک عدالت میں پیش کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔

عدالت کی جانب سے جاری کردہ ’وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد‘ کے لیے آپریشن منگل کی دوپہر کو شروع ہوا تھا جب پولیس اہلکار بکتر بند گاڑی میں عمران خان کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔

اسلام آباد کے ڈی آئی جی شہزاد ندیم بخاری کی قیادت میں پولیس نے مزاحمت کرنے والے پارٹی حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا، تاہم پی ٹی آئی کارکنوں نے پتھراؤ کیا۔

پولیس ٹیم آپریشن مکمل کرنے کے لیے پرعزم تھی، بعد ازاں زخمی ہونے والے ڈی آئی جی بخاری نے کہا تھا کہ ہم عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے آئے ہیں اور آج انہیں ہر قیمت پر گرفتار کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی رضاکارانہ گرفتاری کے امکان کی پیش کش کر کے آپریشن کے پہلے مرحلے سے بچ گئی تھی لیکن یہ ایک تاخیری حربہ تھا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے حامیوں کا ہجوم بڑھتا ہی گیا۔

بعد ازاں پی ٹی آئی کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے درمیان تصادم کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا اور حکومت پنجاب نے کہا کہ کارروائی میں 58 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیجا تھا۔

بعدازاں رواں برس 31 جنوری کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں