کراچی کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں موبائل فون کی دکان پر ڈکیتی کے الزام میں حراست میں لیا گیا رکشہ ڈرائیور پولیس کی حراست سے رہائی کے بعد جاں بحق ہوگیا۔

35 سالہ رکشہ ڈرائیور عبدالرشید کے لواحقین نے میڈیا کو بتایا کہ جب اسے پولیس کی حراست سے رہا کیا گیا تو وہ ٹھیک سے چلنے کے قابل نہیں تھا اور اس پر تشدد کیا گیا تھا۔

دریں اثنا سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ساؤتھ سید اسد رضا نے کہا کہ مسلح ڈاکوؤں نے حال ہی میں ڈی ایچ اے میں ایک دکان پر ڈکیتی کی اور کئی موبائل فون چھین لیے جن کی مالیت تقریباً ایک کروڑ روپے ہے۔

ایس ایس پی اسد رضا نے کہا کہ مجرموں نے ڈکیتی کے لیے رکشہ کا استعمال کیا تھا، سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے تفتیش کاروں نے قیوم آباد کے رہائشی رشید کو تقریباً پانچ دن پہلے ٹریس کر کے حراست میں لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ رکشہ ڈرائیور بے قصور ثابت ہوا کیونکہ ڈاکوؤں نے رکشہ کرائے پر لیا تھا اور اس کے نتیجے میں اسے جمعہ کی رات رہا کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ رشید کا پوسٹ مارٹم جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے کیمیکل اور ہسٹوپیتھولوجیکل رپورٹ آنے تک موت کی وجہ محفوظ رکھی ہے۔ ایس ایس پی اسد رضا نے کہا کہ پولیس ڈاکٹروں کی حتمی رپورٹ کا انتظار کر رہی ہے تاکہ اس دعوے کا پتہ لگایا جا سکے کہ مقتول پر تشدد کیا گیا تھا۔

ایک بیان میں جنوبی ایس ایس پی (انوسٹی گیشن) کے تعلقات عامہ کے افسر نے کہا کہ پولیس نے رکشہ ڈرائیور کی موت کا نوٹس لیا ہے۔

سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈکیتی 12 مارچ کو ڈی ایچ اے کے خیابان سحر پر ایک موبائل فون کی دکان پر ہوئی تھی اور گزری پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 392 اور 397 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے معلوم ہوا کہ ڈاکوؤں کے زیر استعمال رکشہ رشید کا تھا اس لیے تفتیش کاروں نے اسے تفتیشی مقاصد کے لیے حراست میں لیا اور بعد میں اسے چھوڑ دیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے معائنے کے ذریعے موت کی اصل وجہ معلوم کرنے کے بعد مزید قانونی کارروائی کی جائے گی اور اگر کوئی افسر ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں