بھکر: علی امین گنڈاپور نے اہلکاروں پر ’فائرنگ‘ کی، پولیس کا الزام

اپ ڈیٹ 20 مارچ 2023
اہلکاروں کی جانب سے روکے جانے پر علی امین گنڈاپور نے ہنگامہ آرائی شروع کردی، پولیس کا دعویٰ — فائل فوٹو / امیجز
اہلکاروں کی جانب سے روکے جانے پر علی امین گنڈاپور نے ہنگامہ آرائی شروع کردی، پولیس کا دعویٰ — فائل فوٹو / امیجز

بھکر پولیس نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق وفاقی وزیر اور رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) علی امین گنڈاپور نے ڈیرہ اسمٰعیل خان جاتے ہوئے داجل چیک پوسٹ پر چیکنگ کے لیے روکے جانے پر پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی جبکہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما ڈاکٹر افتخار درانی نے پولیس پر سابق وفاقی وزیر پر قاتلانہ حملے کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) بھکر محمد نوید کے مطابق علی امین گنڈاپور ساتھیوں کے ہمراہ گاڑی میں ڈیرہ اسمٰعیل خان جارہے تھے، داجل چیک پوسٹ پر انہوں نے انتہائی تیز رفتاری اور لاپروائی سے گاڑیاں زبردستی گزارنے کی کوشش کی۔

مزید بتایا کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے روکے جانے پر علی امین گنڈاپور نے ہنگامہ آرائی شروع کردی اور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کے بعد فرار ہوگئے۔

واقعے کی اطلاع ملنے پر ڈی پی او محمد نوید داجل چیک پوسٹ پہنچے، انہوں نے کہا کہ معاملے کا جائزہ لیا جارہا ہے، علی امین گنڈاپور کے 4 گارڈز کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن میں آفتاب، شکیل، الطاف اور نیک محمد شامل ہیں جبکہ ان کی گاڑی بھی تحویل میں لے لی گئی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب باؤنڈری پر واقع داجل چیک پوسٹ پر ہر آنے جانے والی گاڑیوں کی انٹری کی جاتی ہے۔

بعد ازاں بھکر پولیس نے علی امین گنڈاپور کے خلاف ہنگامہ آرائی کا مقدمہ درج کرلیا، پولیس نے کہا کہ وہ ساتھیوں کے ہمراہ ڈیرہ اسماعیل خان جا رہے تھے، داجل چیک پوسٹ پر چیکنگ کے لیے روکے جانے پر سابق وفاقی نے ہنگامہ آرائی کی، سابق وفاقی وزیر نے انتہائی تیز رفتاری اور لاپرواہی سے گاڑیاں زبردستی گزارنے کی کوشش کی۔

پولیس نے کہا کہ اہلکاروں کی جانب سے روکے جانے پر علی امین گنڈا پور نے ہنگامہ آرائی شروع کردی اور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کے بعد فرار ہوگئے، پولیس کے مطابق خیبرپختونخوا اور پنجاب سرحد پر واقع داجل چیک پوسٹ پر ہر آنے، جانے والی گاڑی کا اندراج کیا جاتا ہے۔

پنجاب پولیس نے علی امین گنڈاپور کی گاڑی پر قاتلانہ حملے کیے، ڈاکٹر افتخار درانی

دوسری جانب پی ٹی آئی کے سینئر رہنما ڈاکٹر افتخار درانی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہاکہ سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کی گاڑی پر پنجاب پولیس کی جانب سے تین مختلف مقامات پر قاتلانہ حملے کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کے خوف سے حکمران مکمل طور پر درندگی پر اتر آئے ہیں، اس وقت ملک بھر میں نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ ہی املاک۔

انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ ان واقعات کا فوری سوموٹو لے!! پاکستان کو جس آگ میں دھکیلا جا رہا ہے اس کے نتائج مثبت نظر نہیں آرہے۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈاپور قانون کی مبینہ خلاف ورزیوں کے سبب متعدد بار خبروں کی زینت بن چکے ہیں۔

گزشتہ برس پی ٹی آئی نے نئے انتخابات کے اعلان کے لیے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے 28 اکتوبر کو لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا۔

اس دوران وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں علی امین گنڈاپور کی مبینہ آڈیو جاری کی تھی، جس میں پی ٹی آئی رہنما دوسرے شخص سے بندوقوں کی تعداد، لائسنس اور بندوں کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔

آڈیو میں سنا جاسکتا تھا کہ دوسرا شخص بندوقوں کی تعداد اور لائسنس کے بارے میں جواب دیتا ہے کہ بہت ہیں اور بندے جتنے چاہئیں ہوں گے۔

تاہم علی امین گنڈاپور نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی جانب سے بندوق اور لوگ جمع کرنے کی آڈیو جاری کیے جانے بعد ردعمل میں کہا تھا کہ اپنے لوگوں کا تحفظ کرنا میرا بنیادی حق ہے۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’رانا ثنااللہ! میں اپنے لوگوں کی حفاظت کروں گا اور یہ میرا بنیادی حق ہے، یاد رکھیں میں اسی طرح ردعمل دوں گا جس طرح آپ حملہ کریں گے اور میں دہراتا ہوں کہ میں جس طرح آپ حملہ کریں گے اسی طرح ردعمل دوں گا‘۔

قبل ازیں 2016 میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ علی امین گنڈاپور کی گاڑی سے اسلحہ اور شراب کی بوتل برآمد ہوئی ہے۔

پولیس نے بتایا تھا کہ بنی گالا جاتے ہوئے جب چیک پوسٹ پر علی امین گنڈاپور کو روک کر ان کی دو گاڑیوں کی تلاشی لی گئی تو وہاں سے 5 کلاشنکوف، ایک پستول، 3 بلٹ پروف جیکٹس، گولیاں، شراب کی بوتل اور آنسو گیس کی شیلز برآمد ہوئے، علی امین گنڈاپور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم ان کے ڈرائیور کو حراست میں لے لیا گیا۔

نجی ٹی وی سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ میری گاڑی میں 2 اے کے 47 رائفلز تھیں، دونوں کے لائسنس موجود ہیں، ایک کا لائسنس اسی گاڑی میں موجود ہے جو پولیس نے تحویل میں لے لیا ہے، نواز شریف سے زیادتی کا حساب لوں گا۔

تبصرے (0) بند ہیں