پنجاب: عمران خان کو ملنے والی دھمکیوں کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2023
نوٹیفکیشن کے مطابق جے آئی ٹی کسی بھی رکن کو ٹیم میں شریک کر سکتی ہے — فوٹو: پی ٹی آئی/ٹوئٹر
نوٹیفکیشن کے مطابق جے آئی ٹی کسی بھی رکن کو ٹیم میں شریک کر سکتی ہے — فوٹو: پی ٹی آئی/ٹوئٹر

پنجاب کی نگراں حکومت نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو ملنے والی ’قتل کی دھمکیوں‘ کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم گزشتہ چند روز کے دوران بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کے قتل کی سازش کی گئی ہے۔

انکوائری کمیشن کے حوالے سے اعلان عبوری وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے اس وقت کیا جب محکمہ داخلہ نے ایس ایس پی عمران کشور کی سربراہی میں لاہور میں درج 10 ایف آئی آرز کی تحقیقات کرنے اور اسے حتمی شکل دینے کے لیے پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔

تاہم پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے تحقیقاتی ٹیم کو مسترد کر دیا۔

حکومت پنجاب نے عمران خان کی جانب سے مبینہ طور پر قتل کی دھمکیوں کی انکوائری کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

محسن نقوی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اس طرح کے سنگین الزام کی مکمل تحقیقات اور کسی بھی طرح سے سخت کارروائی کی جائے گی۔

یہ ایف آئی آرز ریس کورس، سول لائنز اور شادمان تھانوں میں 22 فروری، 8 مارچ، 14 مارچ، 15 مارچ، 16 مارچ، 18 مارچ اور 19 مارچ کو درج کی گئی تھیں۔

ایس ایس پی کشور پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی قیادت کریں گے، جنہیں حال ہی میں پولیس کی جانب سے فوکل پرسن مقرر کیا گیا تھا۔

تاہم وہ پی ٹی آئی چیئرمین کی رہائش گاہ پر پولیس کے چھاپے کے دوران غائب تھے جس دن عمران خان توشہ خانہ کیس کی سماعت میں شرکت کے لیے اسلام آباد گئے تھے۔

جے آئی ٹی کے دیگر ارکان میں ایس پی آفتاب پھلروان اور انٹیلی جنس بیورو، انٹر سروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے شامل ہیں۔

نوٹی فکیشن کے مطابق جے آئی ٹی کسی بھی رکن کو ٹیم میں شریک کر سکتی ہے۔

دوسری جانب رابطہ کرنے پر پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے مششترکہ تحقیقاتی ٹیم کو مسترد کر دیا اور سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے خلاف براہ راست کام کرنے والا افسر جے آئی ٹی کا کنوینر کیسے ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کا فیصلہ کرنے کے لیے دشمن کو تعینات کیا گیا ہے، اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہو سکتی ہے ۔

ادھر پی ٹی آئی کے وکیل رانا مدثر عمر نے الزام لگایا کہ ایس ایس پی کشور نے مختلف قابل ضمانت سیکشنز کے تحت درج ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی سات دفعات شامل کیں۔

انہوں نے کہا کہ ایس پی آفتاب پھلروان بھی پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف چھاپوں کا حصہ تھے۔

رانا مدثر عمر نے کہا کہ یہ ایک سادہ تفتیشی معاملہ ہے اور اس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندوں کی ضرورت نہیں، اس انکوائری کے لیے ویڈیوز اور حقائق کو جمع کرنے اور ان لوگوں کی شناخت کی ضرورت ہے جنہوں نے غلط کیا تھا۔

دریں اثنا پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پولیس کو اے ٹی سی جج کا فیصلہ بھی مل گیا ہے، جس میں انہوں نے علی بلال المعروف ظل شاہ کی موت کی تحقیقات کا حکم اور تین ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر بھیجنے کی اجازت دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں