بلوچستان اسمبلی کے اراکین کا وفاق سے فنڈز کی عدم فراہمی پر احتجاج

اپ ڈیٹ 24 مارچ 2023
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے وفاق کے رویے پر تنقید کی— فائل/فوٹو: ڈان
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے وفاق کے رویے پر تنقید کی— فائل/فوٹو: ڈان

بلوچستان اسمبلی کے حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں صوبائی حصے کے 50 ارب روپے جاری کرنے کے لیے کئی درخواستوں کے باوجود سیلاب سے متاثرہ صوبے کے مالی اور دیگر مسائل کے حل کے لیے وفاق کی جانب سے عدم تعاون کا رویہ اپنانے پر احتجاج کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے صوبائی حکومت سے کہا کہ اسلام آباد سے حتمی مذاکرات کریں اور وفاقی وزیر کے بجلی کی کمپنیوں کی صوبوں کو حوالگی سے متعلق بیان پر حیرت کا اظہار کیا۔

صوبائی اسمبلی کے اراکین نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت کو کیسکو کے بجائے ریکوڈک، گوادر پورٹ اور گیس کی کمپنی صوبے کے حوالے کرنی چاہیے۔

بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر میر جان محمد خان جمالی کی زیر صدارت اجلاس کے دوران وزیر خزانہ زمرک خان پیرعلی زئی نے مالی بحران کا ذکر کرتے ہوئے وفاق کے رویے پر تنقید کی۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاق نے درخواست کے باوجود بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ کے حصے کے 50 ارب روپے اب تک جاری نہیں کیے، وفاقی حکومت نے وفاقی وزرا اور دیگر عہدیداروں سے صوبے کی چیلنجز اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے حوالے متعدد بار درخواستوں کے باوجود مالی مسائل حل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو ملنے والی بیرونی امداد سے بلوچستان کو ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں ہماری نشستیں بڑھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ ہم اپنے حقوق کا مطالبہ کریں گے۔

زمرک خان پیرعلی زئی نے کہا کہ اراکین اسمبلی آگاہ ہیں کہ محکمہ خزانہ کے پاس محدود وسائل ہیں اور صوبائی حکومت کے چند اقدامات کے لیے فنڈز وفاقی حکومت سے ملتے ہیں۔

زمرک خان پیرعلی زئی نے کہا کہ ’ہم بہت مشکل صورت حال سے دوچار ہیں اور ہمیں اپنے پی ایس ڈی پی مکمل کرنے کے لیے سخت صورت حال کا سامنا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کو جنوری کے مہینے کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 15 رکنی وفد اسلام آباد گیا تھا اور وہاں وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر بجلی خرم دستگیر سے صوبے کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ جب ہمارے وفد نے انہیں تجویز دی کہ بجلی کی کمپنی کے بجائے گیس کی تقسیم، گوادر پورٹ اور ریکوڈک صوبے کو دے دیں تو وزیر دفاع یہ کہتے ہوئے اجلاس چھوڑ کر چلے گئے کہ انہیں وزیراعظم کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانا ہے۔

وفاقی وزیر کی عدم دلچسپی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مرکز نے بلوچستان سے گئے ہوئے وفد کو بالکل نظر انداز کیا۔

زمرک خان پیرعلی زئی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت میں بھی بلوچستان نے صوبے میں ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس معاملے پر کچھ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ زیر التوا منصوبے نامکمل رہ جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں