قانونی ماہرین، چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیار کیلئے ’اصول طے‘ کرنے کے حامی

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2023
بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کا طویل عرصے سے مطالبہ تھا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو منظم اور باقاعدہ بنایا جائے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک
بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کا طویل عرصے سے مطالبہ تھا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو منظم اور باقاعدہ بنایا جائے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک

قانونی ماہرین جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات سے متعلق مناسب قواعد وضع کرنے کے مطالبے کی حمایت کر رہے ہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ یہ طے کرنا سپریم کورٹ پر منحصر ہے کہ یہ فیصلہ 2-3 یا 3-4 کی اکثریت سے آیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’سما ٹی وی‘ کے پروگرام ’ندیم ملک لائیو‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے احکامات کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کرنے والا پانچ رکنی بینچ فیصلہ کرے گا کہ یکم مارچ کے حکم پر 2 کے مقابلے 3 یا 3 کے مقابلے 4 ججز کی اکثریت کا اطلاق ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک دو روز میں واضح ہو جائے گا، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘

سلمان اکرم راجا نے دلیل دی کہ آئین کے مطابق چھوٹے بینچ بھی سپریم کورٹ کے مؤقف کی نمائندگی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی اصول نہیں جو کہتا ہو کہ فُل کورٹ بیٹھے گی، ہم بینچ کو سپریم کورٹ سمجھتے ہیں، اب ایک بینچ معاملے کی سماعت کر رہا ہے جو فیصلہ کرے گا کہ گزشتہ حکم کیا تھا اور ہمیں اسے قبول کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اختلافی نوٹ میں اٹھائے گئے ’تمام مسائل‘ اہم ہیں، تاہم انہوں نے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے لیے کچھ اصول طے کرنے کے مطالبے کو درست قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں فوری طور پر قواعد وضع کرنے چاہئیں، تاہم ہم ماضی کو صرف یہ کہہ کر رد نہیں کر سکتے کہ ’یہ ون مین شو تھا‘ یا ’چیف جسٹس نے بینچ بنائے‘۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اس طرح کے قواعد ابھی تک نہ بنائے جانے کی وجہ سپریم کورٹ کے ججز میں اتفاق رائے کا فقدان ہے۔

قانونی ماہر صلاح الدین احمد نے ’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کا طویل عرصے سے مطالبہ تھا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو منظم اور باقاعدہ بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آپ اسے مکمل طور پر ان کی صوابدید پر نہیں چھوڑ سکتے اور جیسا کہ آج کا فیصلہ (ظاہر کرتا ہے کہ) بہت سخت زبان استعمال کی گئی ہے اور عدالتی سامراج کا ذکر کیا گیا ہے‘۔

صلاح الدین احمد نے کہا کہ اصلاحات کا مسئلہ ماضی میں کئی بار اٹھایا گیا، بہت سے ججز نے اپنی ریٹائرمنٹ کی تقاریر میں سیاسی یا حساس معاملات میں بینچز کی نام نہاد منتخب ساخت کے بارے میں شکایات کا اظہار کیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب 7-8 یا درجن جج یہ کہہ رہے ہوں تو چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں پر یہ تاثر نہ پڑنے دیں کہ وہ مخصوص ججز کے ذریعے ادارہ چلا رہے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ چیف جسٹس فل بینچ بنانے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں کہ تمام جج ایک ساتھ بیٹھ سکیں اور ’اجتماعی اتھارٹی کے ساتھ بات کر سکیں تاکہ معاملات مزید پیچیدہ ہونے کے بجائے حل ہوں‘۔

سلمان اکرم راجا جیسے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بھی یہی کہا کہ موجودہ پانچ رکنی بینچ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ 2-3 یا 3-4 میں سے کس کی اکثریت کے فیصلے کا اطلاق ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ واقعات سے سپریم کورٹ کا تقدس متاثر ہو رہا ہے، معاملہ سادہ ہے، جب آپ مخصوص تین سے چار ججز کو اہم آئینی اور سیاسی مقدمات کی سماعت میں شامل کریں گے تو قدرتی طور پر لوگوں کو تحفظات ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں