سابق فوجی افسر کے اہل خانہ نے سویلین بیٹے کے کورٹ مارشل پر خاموشی توڑ دی

اپ ڈیٹ 29 مارچ 2023
میجر جنرل (ر) سید ظفر مہدی عسکری نے پریس کانفرنس میں تفصیلات بتائیں — فوٹو: ڈان
میجر جنرل (ر) سید ظفر مہدی عسکری نے پریس کانفرنس میں تفصیلات بتائیں — فوٹو: ڈان

سابق فوجی افسر کے اہل خانہ نے عسکری اور عدالتی حکام سے حسن عسکری کیس میں انصاف یقینی بنانے کے لیے جذباتی درخواست کردی، جنہیں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو تنقیدی خط لکھنے پر کورٹ مارشل کر دیا گیا جبکہ وہ سویلین ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حسن عسکری کے والد ریٹائرڈ میجر جنرل سید ظفر مہدی عسکری، والدہ وسیمہ اور بہن زہرا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے بعد پریس ریلیز جاری کی اور اپنی مشکلات سے آگاہ کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حسن عسکری کو نہ صرف غیر منصفانہ انداز میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں پیش کیا گیا اور جرم بتائے بغیر سزا سنا دی گئی بلکہ انہیں خطرناک دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے ساتھ جیل میں رکھا گیا ہے اور عدالتی احکامات کے باوجود اڈیالہ جیل نہیں بھیجا گیا۔

حسن عسکری کو اکتوبر 2020 میں ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا اور فوج کی حراست میں دیا گیا تھا، انہیں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں مجرم قرار دے کر 5 سال قید بامشقت کی سزا سنادی گئی تھی۔

انہیں سزا سنادی گئی لیکن انہیں یا ان کے اہل خانہ کو جرم یا سزا کی نقل نہیں دی گئی حالانکہ اس حوالے سے درخواستیں بھی کی گئی تھیں۔

حسن عسکری کے والد میجر جنرل ریٹائرڈ ظفر عسکری نے کہا کہ وہ ڈھائی سال سے فوجی قیادت سے ایک مختصر ملاقات کے خواہاں ہیں اور دو درجن سے زائد خطوط لکھ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خطوط کا نہ تو کوئی جواب آیا اور نہ ہی آج تک کسی طرح آگاہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی آزمائش کی وجہ مخصوص خطوط ہیں جو ان کے بیٹے نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سرکردہ جنرلز کو بھیجے تھے اور اس میں انہوں نے مسلح افواج کی جانب سے پاکستان کی معاشی اور سیاسی صورت حال پر کیے گئے فیصلوں کے ممکنہ اثرات پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

حسن عسکری کے والد نے کہا کہ میرے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131 یا ایک سپاہی، بحریہ یا فضائیہ کے اہلکار کو اپنے فرائض انجام دینے سے توجہ ہٹانے کے تحت جرم درج کیا گیا لیکن پاکستان آرمی ایکٹ کی کوئی شق شامل نہیں کی گئی۔

انہوں نے مذکورہ اقدام کو انصاف کا قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک سویلین کو فوجی اہلکاروں کو اکسانے کے جرم کے شبہے میں کورٹ مارشل کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مبینہ خط میں ایک محب وطن پاکستانی نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، جس کا کسی ادارے یا سیاسی جماعت سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا اور نہ ہی تشدد پر اکسایا یا کسی قسم کی ریاست مخالف کام کیا۔

سابق فوجی افسر کے اہل خانہ نے بتایا کہ اس کے باوجود ان کے بیٹے کو اپنے دفاع کا حق دیے بغیر مجسٹریٹ کے ذریعے فوج کی حراست میں دیا گیا اور بغیر کسی جرم یا وکیل تک رسائی کے کئی ماہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا اور صرف انہیں سزا سنانے کے بعد اپنے اہل خانہ سے رابطے کی صرف ایک دفعہ اجازت دی گئی۔

حسن عسکری کی بہن زہرا نے صحافیوں کو بتایا کہ سزا کے حوالے سے ان کے وکیل یا اہل خانہ کو کبھی آگاہ نہیں کیا گیا۔

زہرا نے کہا کہ ان کے بزرگ اور بیمار والدین کو سخت حالات میں ساہیوال میں بیٹے سے ملنے کے لیے جانا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے، والدہ کو گردوں کا عارضہ لاحق ہے جو آخری اسٹیج پر ہے اور ہفتے میں تین دفعہ ڈائیلاسز کی ضرورت پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈھائی سال کے دوران ان کی والدہ کی حالت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور والد کی عمر 87 برس ہے اور انہیں کئی بیماریاں لاحق ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حالات میں صرف آدھے گھنٹے کی ملاقات کے لیے ایک دن میں 14 سے 15 گھنٹوں کا سفر کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

زہرا نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینج کا 14 جون 2022 کو جاری ایک حکم نامہ بھی دکھایا، جس میں ہدایات دی گئی تھیں کہ حسن عسکری کو ساہیوال میں انتہائی سیکیورٹی کے حامل جیل سے فوراً سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی منتقل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 9 ماہ گزر جانے کے باوجود اب تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

ڈان نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے ردعمل کے لیے رابطہ کیا لیکن رپورٹ شائع ہونے تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں