4 اپریل کو ذوالفقار بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا، آج اسی تاریخ کو عدل و انصاف کا قتل ہوا، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 04 اپريل 2023
وزیر اعظم نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالت قتل کا جو ریفرنس 12 سال سے پڑا ہے—فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
وزیر اعظم نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالت قتل کا جو ریفرنس 12 سال سے پڑا ہے—فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ تاریخ کی ستم ظریقی ہے کہ 4 اپریل کو ذوالفقار بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا اور آج ہی کے دن الیکشن کے حوالے سے پچھلے 72 گھنٹوں میں کارروائیاں ہوئیں، آج ایک مرتبہ پھر 4 تاریخ کو عدل و انصاف کا قتل ہوا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سمیت دیگر اراکین اسمبلی نے خطاب کیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جیسا کہ وزیر قانون نے فرمایا کہ آج کابینہ میں فیصلہ ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا جو ریفرنس 12 سال سے پڑا ہے، اس پر عمل ہونا چاہیے اور اس حوالے سے فل کورٹ بیٹھے اور فیصلہ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا سمجھتی ہے کہ 1973 کے متفقہ آئین کے بانیوں میں شامل ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا ایک عدالتی قتل تھا، ملک کو 1973 کا متفقہ آئین دینا پاکستان کی تاریخی خدمت تھی جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اگر میں غط نہیں تو فیصلہ کرنے والے ایک جج نے بھی بعد میں اپنی یادداشت میں اس بارے میں اعتراف کیا تھا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ تاریخ کا کیسا جبر ہے کہ آج 4 اپریل ہی کے دن سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا اور آج 4 اپریل کو ایک مرتبہ پھر عدل و انصاف کا قتل ہوا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

اس موقع پر وزیراعظم نے اسپیکر سے اپیل کی کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لیے ایوان میں دعا کرائی جائے جس پر مولانا اسعد محمود نے سابق ویزراعظم کے لیے دعا کرائی۔

ایک ضدی شخص کی انا کی تسکین کے لیے دو اسمبلیاں توڑی گئیں، وزیر قانون

قبل ازیں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی اجلاس میں کہا کہ ایک ضدی شخص کی انا کی تسکین کے لیے دو اسمبلییاں توڑی گئیں، اس اقدام کا مقصد ملک میں سیاسی تقسیم کی داغ بیل ڈالنا تھا۔

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج جب اس عدالتی فیصلے کے ہوتے ہوئے یہ فیصلہ سنا دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ اس فیصلے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے لیکن حیرانگی کی بات ہے پھر ایک 6 رکنی بینچ بنادیا گیا جس نے اسی فیصلے کو ختم کرکے کاروائی بھی روک دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم انتخاب سے بھاگنے والے نہیں ہیں لیکن یہ تاثر کبھی نہیں جانا چاہیے جو تاثر پچھلے دور میں ایک ادارے کے بارے تھا کہ اس ادارے نے پولیٹیکل انجینرنگ کا حصہ بن کے اس ملک کے سیاسی کلچر کو نقصان پہنچایا ہے۔

وزیرقانون نے کہا کہ چیف جسٹس سے استدعا کی کہ آپ کے گھر میں تقسیم ہے آپ کے عدل کے ایوان میں پاکستان کے عوام مختلف آرا سن رہے ہیں اپنے گھر کو یکجا کریں اور اس معاملے کو فل کورٹ میں لے جائیں۔

اس سے قبل وفاقی وزیر قانون نے کہا تھا کہ 3 رکنی بینچ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار ہی کرسکتا ہوں، اس کی وجہ سے ملک میں جاری سیاسی و آئینی بحران اور زیادہ سنگین ہوگا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ جاری ہونے کے بعد رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سیاسی جماعتوں، بار کونلسز اور سول سوسائٹی کے مطالبے کے باوجود یہ فیصلہ سنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 3 رکنی بینچ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار ہی کرسکتا ہوں، اس کی وجہ سے ملک میں جاری سیاسی و آئینی بحران اور زیادہ سنگین ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آج جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ بھی بنادیا گیا ہے جس میں جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اظہر رضوی شامل ہیں، یہ پیس رفت اٹارنی جنرل کے دلائل اور پارلمیان میں ہمارے مؤقف کی دلیل ہے، قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ دیا تھا کہ جب تک فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوتی اور 184 (3) کے حوالے سے رولز نہیں بن جاتے اس وقت تک ازخود نوٹس کے کیسز پر سماعت نہ کی جائے۔

ججز نے اپنا نام عاشقان عمران، عاشقان پی ٹی آئی میں لکھوانے کو ترجیح دی، مولانا اسعد محمود

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

قومی اسمبلی اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود نے کہا کہ انتخابات کیس کے حوالے سے پارلیمنٹ میں قرارداد پاس کی گئی کہ جو جج صاحبان سپریم کورٹ میں کیس سن رہے ہیں وہ انصاف کے پیمانے پر پورا نہیں اتر رہے، ان کا پس منظر اور تاریخ میں دیے گئے فیصلے وہ تاریخ میں روشن باب ہیں، ایک قرار داد پاس کرکے ایک پیغام بھیجا گیا کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں اور اس مقدمے کو فل کورٹ سنے اور فیصلہ دے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان، پیپلزپارٹی کی طرف سے بلاول بھٹو، جے یو آئی کی طرف سے میں نے اور دیگر جماعتوں نے پارلیمنٹ کے اندر ان سے مطالبہ کیا کہ کیس کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

مولانا اسعد محمود نے کہا کہ 2000 کے بعد آج ہمیں جس عدالتی بحران کا سامنا ہے، عدالت نے آج اپنے فیصلے سے قوم کے اندر جس تقسیم کی بنیاد رکھی ہے کہیں یہ بحران ہمیں بہا کر نہ لے جائے، یہ من پسند فیصلے جو عدالت کر رہی ہے، ان کو پارلیمنٹ کا لحاظ ہے نہ ان کو سیاسی جماعتوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کا لحاظ ہے، تنازع کس بات پر ہے، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ہمارے حق میں یا عمران خان کے خلاف فیصلہ کریں، صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ غیر متنازع بینچ تشکیل دیں لیکن ان کے کان پر جوں تک نہی رینگیں۔

وزیر مواصلات نے کہا کہ ہم ججوں کو کون کون سے معزز ناموں سے ان کو پکار رہے ہیں لیکن انہوں نے اس ایوان کی قرارداد کا لحاظ نہیں رکھا، وہ ایک فیصلے سے اپنی غیر جانبداری دکھا سکتے تھے لیکن انہوں نے اس بات کو ترجیح دی کہ ہم اپنا نام عاشقان عمران اور عاشقان تحریک انصاف میں اپنا نام لکھوالیں۔

’آج جوڈیشل مارشل لا کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں‘

مولانا اسعد محمود نے کہا کہ عدالت کو آئین کے تحت فیصلے کرنا اختیار ہے لیکن یہ اختیار نہیں ہے کہ الیکشن کے ڈومین میں گھس کر فیصلہ کریں، الیکشن کی تاریخ بھی آپ دیں، اس کا طریقہ کار بھی آپ دیں، یہ جانبدارنہ فیصلہ دیں، سیاسی جماعتوں کو یہ فیصلہ قطعی طور پر قابل قبول نہیں ہے، ہمیں انصاف چاہیے، ہم نے ملک میں ملٹری مارشل لا کے خالف جدوجہد کی، آج بھی ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم جوڈیشل مارشل لا کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں، ہم کسی صورت بھی جوڈشل مارشل لا کو قبول نہیں کرتے، عدالتوں کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ عدالتیں اگر اپنے اندر آئین و قانون کی عمل داری اور حکمرانی کے لیے آپس میں اتفاق نہیں کر سکتے تو پھر آپ کو اپنے گریبان میں دیکھنا ہوگا، آپ نے عدلیہ کو تقسیم کیا ہے ، آپ سمجھتے ہیں کہ آپ عوام میں تقسیم اور ملک میں بحران کی بنیاد ڈالیں گے، قوم کو اضطراب کا شکار کریں گے اور آپ اپنے گھروں میں سکون اور اطمینان کے ساتھ سوئیں گے تو آپ نے جو بے انصافی کی، عدل کا جو جنازہ نکالا، آپ کی روح اور آپ کے دل کو اطمینان نہیں ملے گا، آپ نے آئین و جمہور کا جنازہ نکالا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اکابرین، آبا و اجداد کی جد و جہد کی جو امانت ہمیں ملی ہے ہم آئین و جمہوریت برقرار رکھیں گے اور کسی صورت بھی آپ کے اس ناجائز، غیر شرعی فیصلے کو پاکستان میں نافذ العمل نہیں ہونے دیں گے، آئین و قانون کی حد تک ہم آخری دم تک لڑیں گے۔

’جناب وزیراعظم نہ آپ کو تنہا چھوڑیں گے، نہ آئین کو تنہا چھوڑیں گے‘

مولانا اسعد محمود نے کہا کہ عدالت کہتی ہے الیکشن کمیشن کو کہ حکومت آپ کی بات نہ مانے تو ہمیں بتائیں، کل حکومت نے فیصلہ کیا کہ رجسٹرار کو واپس بلاتے ہیں، آج آپ نے انکار کیا، الیکشن کمیشن انتظامی معاملات میں عدم تعاون پر آپ کو شکایت کرے، آپ کے خلاف ہم کہاں شکایت کریں، ہمیں بتایا جائے، آپ انتظامیہ کے اختیارات میں مداخلت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا جب سے یہ حکومت بنی ہے، وزیراعظم نے بھی مشاورت کی ہے، اس مشاورت کی بنیاد پر ہم پاکستان کے مستقبل کا تعین کریں گے، جناب وزیراعظم ایسے نہیں چھوڑیں گے، نہ آپ کو تنہا چھوڑیں گے، نہ آئین کو تنہا چھوڑیں گے، نہ پارلیمان کو کسی کے رحم و کرم پر چھوڑیں گے، ہم اسباب و عوامل جانتے ہیں لیکن ہم سیاسی لوگ ہیں، ہم کہتے ہیں کہ جج پر پردہ پڑا رہے، جرنیل پر بھی پردہ پڑا رہے لیکن جب بھی موقع ملتا ہے تو جو گناہ سیاست دان نے کیے بھی نہیں ہوتے، انہیں بھی اچھال دیا جاتا ہے۔

’یہ فیصلوں کا اتوار بازار بند کرنا پڑے گا‘

وزیر مواصلات نے کہا کہ آئیں ملک کے سیاسی و معاشی استحکام کے لیے بات کریں، آج سپریم کورٹ کہتی ہے کہ پارلیمان عمران خان سے بات کرے جس کا پارلیمان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، کبھی عدالت نے نہیں کہا کہ سعد رضوی سے بات کرو، ملک میں عسکریت پسندی پروان چڑھتی ہے، عدالت نے کبھی اس کا از خود نوٹس نہیں لیا، کبھی متفقہ فیصلہ نہیں کیا کہ مذاکرات کریں یا آپریشن کریں، اس پر از خود نوٹس نہیں لیا جاتا، قوم پرست، مذہبی تنظیمیں، اقلیتیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں، تحریک چلاتی ہیں، اس پر کیوں از خود نوٹس نہیں لیا جاتا۔

مولانا اسعد محمود نے کہا کہ ہم وزیراعظم کے شانہ بشانہ تھے، ہیں اور اگر ہم آپ کو حق پر نہ سمجھتے تو آپ کے ساتھ نہ ہوتے، ہم اس آئین اور جمہوریت کے لیے آپ کے ساتھ ہیں، ہم آئینی و قانونی جنگ لڑ رہے ہیں، جس طرح سے آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں، یہ جو فیصلوں کا اتوار بازار لگا ہوا ہے، اس کوبند کرنا پڑے گا، آئین و قانون کی عملداری اور بالادستی کو سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

’عدلیہ بحال تو ہوئی لیکن اسے ہم آزاد، غیر جانبدار نہیں کروا سکے‘

وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے اجلاس کے دوران کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ عدلیہ بحال تو ہوئی لیکن اسے ہم آزاد اور غیر جانبدار نہیں کروا سکے، اسی چکر میں خود دو بار جیل گیا اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ پانامہ بینچ!

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر عمران خان پہ عدم اعتماد ہوا ہے تو یہ کونسا غیر قانونی یا غیر آئینی راستہ اختیار کیا گیا ہے؟ ہم نے دھرنہ تو نہیں دیا اسلام آباد کا گھیراؤ تو نہیں کیا.ہم میں سے کس نے جیل نہیں کاٹی؟

انہوں نے کہا کہ یاد کیجیے وہ دن جب عمران خان اسلام آباد آرہا تھا تو قابل احترام سپریم کورٹ سے فیصلہ دیا گیا کہ اسکو آنے دو ساری اسلام آباد پولیس کو ایک طرف کردیا گیا.پھر کیا ہوا انہوں نے آگ لگائی ہنگامہ کیا اس بینچ نے عمران خان کو کیوں بلا کر نہیں پوچھا کہ تم نے کیپیٹل کے ساتھ یہ کھلواڑ کیوں کیا۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں بلا خوف تردید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج جو فیصلہ آیا ہے اس خرابی کی بنیاد وہ غیر منصفانہ , غیر قانونی اور غیر آئینی فیصلہ ہے جو پنجاب اسمبلی کے 25 ارکان کو نااہل کیا گیا کہ تمہارے ووٹ بھی نہیں گنے جائیں گے اور تمہیں نااہل بھی کیا جائیگا۔

’آج یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس ملک کو کون چلا رہا ہے‘

اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس ملک کو کون چلا رہا ہے۔

سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں طاقت کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے، جس سے آئین کی حفاظت نہیں بلکہ قوم کی تقسیم ہورہی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت آج پھر ہمیں یہ سبق دے رہی ہے کہ عدالتی قتل کے بعد قوم، جمہوریت اور ریاست اس سے کبھی باہر نہیں نکل سکتیں۔

بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے اجلاس کی کارروائی 5 اپریل بروز بدھ دن گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں