افغانستان میں تعینات پاکستانی ناظم الامور حملے کے 4 ماہ بعد واپس کابل پہنچ گئے

17 اپريل 2023
ناظم الامور عبید الرحمٰن نظامانی واپس کابل پہنچ گئے— ٹوئٹر / پاکستانی سفارتخانہ
ناظم الامور عبید الرحمٰن نظامانی واپس کابل پہنچ گئے— ٹوئٹر / پاکستانی سفارتخانہ

افغانستان میں تعینات پاکستان کے ناظم الامور عبیدالرحمٰن نظامانی سفارت خانے پر حملے کے چار ماہ بعد واپس کابل پہنچ گئے ہیں۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ناظم الامور عبیدالرحمٰن نظامانی نے کہا ہ ’جی ہاں، میں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔‘

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ اور پاکستانی سفارت خانے کے پریس کونسلر طاہر نواز نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔

افغان وزارت خارجہ کے ڈپٹی ترجمان حافظ ضیا احمد نے بھی اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس 3 دسمبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی کے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تھا جہاں ناظم الامور عبیدالرحمٰن نظامانی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی تاہم وہ محفوظ رہے جبکہ ایک سیکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہوگیا تھا۔

دفتر خارجہ نے تصدیق کی تھی کہ ناظم الامور عبیدالرحمٰن نظامانی کو ہی نشانہ بنایا گیا تھا، بعدازاں کالعدم داعش کے خراسان چیپٹر نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

خیال رہے کہ اس وقت عبید الرحمٰن نظامانی کو کابل میں مشن کے سربراہ کے طور پر ذمہ داری سنبھالے ایک ماہ ہوا تھا جہاں ان سے قبل 4 نومبر 2022 کو سابق سفارت کار منصور احمد خان مشن کے سربراہ تھے۔

حملے کے ٹھیک 10 دن بعد کابل کے ایک ہوٹل میں بم حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں 5 چینی شہری زخمی ہوگئے تھے جس کے بعد چین نے اپنے شہریوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔

بعدازاں 5 جنوری کو افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے اور چینی باشندوں پر حملے میں ملوث ’داعش‘ کے عسکریت پسندوں کا ایک گروہ فورسز کی کارروائی کے دوران مارا گیا۔

فروری میں سرکاری ذرائع نے سفارت کاروں کے انخلا کی افواہوں کو مسترد کیا تھا جبکہ زور دیا تھا کہ سفارتی حکام کو واپس بھیجنے سے قبل وہ افغان حکومت سے سیکیورٹی کی یقین دہانی کا انتظار کر رہے ہیں۔

دریں اثنا اسی ماہ کے دوران افغان حکام کے ساتھ سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر بات چیت کے لیے کابل جانے والے وفد میں عبیدالرحمٰن نظامانی بھی شامل تھے جہاں دونوں فریقوں نے خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے، خاص طور پر کالعدم عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے خراسان گروپ سے متعلق بات چیت کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں