سوڈان میں جاری تنازع آخر ہے کیا؟
سوڈان میں 15 اپریل سے جاری لڑائی میں سیکڑوں افراد ہلاک، ہزاروں افراد اپنے گھروں سے دربدر ہوچکے ہیں جس نے انسانی بحران کو جنم دے دیا ہے اور پہلے سے غیر مستحکم خطے میں خانہ جنگی کے خوف سے دیگر ممالک کو اپنے شہریوں کے انخلا پر مجبور کردیا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق سوڈان کے متحارب جرنیلوں کے درمیان امریکی ثالثی میں 72 گھنٹے کی جنگ بندی باضابطہ طور پر عمل میں آئی۔
تشدد کیسے شروع ہوا؟
سوڈان کی فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان کئی مہینوں سے تناؤ چل رہا تھا، جنہوں نے مل کر اکتوبر 2021 کی بغاوت میں ایک سویلین حکومت کا تختہ الٹا تھا۔
ان میں سے ایک دھڑے کو بین الاقوامی حمایت کے ساتھ سویلین فریقین کے ساتھ منتقلی کے لیے آگے لایا گیا، ایک حتمی معاہدے پر اپریل کے اوائل میں، ایک عوامی بغاوت میں طویل عرصے سے حکمران اسلام پسند مطلق العنان عمر البشیر کی معزولی کی چوتھی برسی کے موقع پر دستخط کیے جانے تھے۔
فوج اور آر ایس ایف دونوں کو اس منصوبے کے تحت اقتدار سونپا جانا تھا جو دو معاملات خاص طور پر متنازع ثابت ہوئے ان میں ایک آر ایس ایف کو باقاعدہ مسلح افواج میں ضم کرنے کا ٹائم ٹیبل تھا، اور دوسرا وہ وقت تھا جب فوج کو باضابطہ طور پر شہری نگرانی میں رکھا جائے گا۔
جب لڑائی شروع ہوئی تو فریقین نے ایک دوسرے پر تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگایا، فوج نے آر ایس ایف پر گزشتہ دنوں میں غیر قانونی نقل و حرکت کا الزام لگایا اور آر ایس ایف نے خرطوم میں اہم اسٹریٹجک مقامات پر منتقل ہونے کے بعد کہا کہ فوج نے عمر البشیر کے وفاداروں کے ساتھ مل کر پوری طاقت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
اہم کردار کون ہیں؟
اقتدار کی لڑائی میں مرکزی کردار جنرل عبدالفتاح البرہان ہیں، جو فوج کے سربراہ اور 2019 سے سوڈان کی حکمران کونسل کے رہنما ہیں، اور دوسرے کونسل میں ان کے نائب، آر ایس ایف کے رہنما جنرل محمد حمدان دگالو ہیں، جنہیں عام طور پر حمدتی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جیسے ہی ایک نئی منتقلی کا منصوبہ تیار ہوا حمدتی نے خود کو اتحاد کی سویلین جماعتوں کے ساتھ زیادہ قریب سے جوڑ دیا، فورسز فار فریڈم اینڈ چینج (ایف ایف سی) نے عمر البشیر کی معزولی اور 2021 کی بغاوت کے درمیان فوج کے ساتھ طاقت کا اشتراک کیا تھا۔
سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حمدتی کی اس حکمت عملی کا حصہ تھا کہ وہ خود کو ایک سیاستدان میں تبدیل کر کے اقتدار کے مرکز میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کر سکے۔
سونے کی کان کنی اور دیگر منصوبوں کے ذریعے دولت مند بننے والے ایف ایف سی اور حمدتی دونوں نے اسلام پسند جھکاؤ رکھنے والے عمر البشیر کے وفاداروں اور سابق فوجیوں کو ایک طرف کرنے کی ضرورت پر زور دیا جنہوں نے بغاوت کے بعد دوبارہ قدم جما لیے تھے اور ان کی جڑیں فوج میں گہری ہیں۔
فوج کے حامی باغی دھڑوں کے ساتھ جنہوں نے 2020 کے امن معاہدے سے فائدہ اٹھایا، عمر البشیر کے وفاداروں نے ایک نئی منتقلی کے معاہدے کی مخالفت کی تھی۔
داؤ پر کیا لگا ہے؟
عوامی بغاوت نے امید پیدا کی تھی کہ سوڈان اور اس کی 4 کروڑ 60 لاکھ کی آبادی کئی دہائیوں کی آمریت، اندرونی تنازعات اور عمر البشیر کے دور کی معاشی تنہائی سے نکل سکتی ہے۔
افریقہ کے سب سے بڑے شہری علاقوں میں سے ایک پر مرکوز موجودہ لڑائی نہ صرف ان امیدوں کو ختم کر سکتی ہے بلکہ ساحل، بحیرہ احمر اور افریقہ کے ہارن سے متصل ایک غیر مستحکم خطے کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔
یہ معاملہ روس اور امریکا کے درمیان خطے میں اثر و رسوخ کے لیے اور علاقائی طاقتوں کے درمیان جنہوں نے سوڈان میں مختلف عناصر کو پیش کیا ہے، مقابلے کا حصہ بھی بن سکتا ہے۔
بین الاقوامی عناصر کا کیا کردار ہے؟
عمر البشیر کی معزولی کے بعد امریکا سمیت مغربی طاقتیں جمہوری انتخابات کی جانب منتقلی کے پیچھے پڑ گئی تھیں، انہوں نے بغاوت کے بعد مالی امداد معطل کر کے نئی منتقلی اور سویلین حکومت کے منصوبے کی حمایت کی تھی۔
توانائی سے مالا مال طاقتوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی سوڈان میں واقعات کو شکل دینے کی کوشش کی ہے، عمر البشیر کی حکومت سے دور منتقلی کو اسلام پسند اثر و رسوخ واپس لینے اور خطے میں استحکام کو فروغ دینے کے طریقے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
خلیجی ریاستوں نے زراعت سمیت شعبوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جہاں سوڈان کے پاس وسیع امکانات ہیں اور سوڈان کے بحیرہ احمر کے ساحل پر بندرگاہیں ہیں۔
روس بحیرہ احمر پر بحری اڈہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کی متعدد کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے سائن اَپ کر رہی ہیں۔
عبدالفتاح برہان اور حمدتی دونوں نے یمن میں سعودی قیادت میں آپریشن میں حصہ لینے کے لیے فوج بھیجنے کے بعد سعودی عرب سے قریبی تعلقات استوار کیے تھے جبکہ ہمدتی نے متحدہ عرب امارات اور روس سمیت دیگر غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ بھی تعلقات قائم کیے تھے۔
صورتحال کیا ہے؟
بین الاقوامی فریقین نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور بات چیت کی جانب واپسی کا مطالبہ کیا ہے لیکن لڑائی میں وقفے کے باوجود متحارب دھڑوں کی جانب سے سمجھوتے کے چند ہی اشارے ملے ہیں جس کی وجہ سے غیر ملکی ممالک کو اپنے کچھ شہریوں کو نکالنے کی اجازت ملی ہے۔
ایک ایسے ملک میں بڑھتا ہوا انسانی بحران جو پہلے ہی اپنے لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے امداد پر انحصار کرتا ہے، بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کا باعث بن سکتا ہے، پہلے ہی 20 ہزار افراد تک ہمسایہ ملک چاڈ، جبکہ 10 ہزار جنوبی سوڈان کے لیے روانہ ہو چکے ہیں اور بڑھتی ہوئی تعداد شمال کی جانب مصر کی طرف جا رہی ہے۔
فوج نے آر ایس ایف کو ایک باغی فورس قرار دیا اور اسے تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا، جب کہ ہمدتی نے عبدالفتاح برہان کو مجرم قرار دیتے ہوئے ان پر ملک میں تباہی پھیلانے کا الزام لگایا۔
اگرچہ سوڈان کی فوج کے پاس فضائی طاقت اور ایک اندازے کے مطابق 3 لاکھ فوجیوں سمیت اعلیٰ وسائل ہیں لیکن آر ایس ایف کے پاس بڑے شہروں میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ فوجی تعینات ہیں۔
آر ایس ایف مغربی علاقے دارفر میں حمایت اور قبائلی روابط کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے، جہاں یہ ان ملیشیاؤں سے ابھری ہے جو 2003 کے بعد جنگ میں باغیوں کو کچلنے کے لیے حکومتی افواج کے ساتھ مل کر لڑی گئی تھی۔