وفاق کے کومبنگ آپریشن میں کراچی کے کئی علاقوں کی مردم شماری نہ ہونے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 27 اپريل 2023
ضلعی انتظامیہ کے شمار کنندگان نے 32 ہزار میں سے بہت سی عمارتوں کا دورہ ہی نہیں کیا تھا — تصویر: وائٹ اسٹار
ضلعی انتظامیہ کے شمار کنندگان نے 32 ہزار میں سے بہت سی عمارتوں کا دورہ ہی نہیں کیا تھا — تصویر: وائٹ اسٹار

سیاسی جماعتوں کے خدشات کو دور کرنے اور ڈیجیٹل مردم شماری میں ’مسائل کو حل کرنے‘ کے لیے وفاقی حکومت نے پاکستان ادارہ شماریات کی ٹیمیں تعینات کی ہیں جنہیں حکام نے کومبنگ آپریشن قرار دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عید کی چھٹیوں کے بعد بدھ کو دوبارہ گنتی کا عمل شروع ہونے کے ساتھ ہی ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی مداخلت سے ظاہر ہوا ہے کہ مردم شماری کے عمل میں ’خامیاں‘ تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی بی ایس کی ٹیموں نے شہر کے کئی علاقوں کا دورہ کیا اور دیکھا کہ 32 ہزار بلند و بالا عمارتوں میں سے بہت سی اس عمل میں ’غیر شمار‘ رہ گئی ہیں کیونکہ ضلعی انتظامیہ کے شمار کنندگان نے ان عمارتوں کا دورہ ہی نہیں کیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی بی ایس افسران کے متعدد چھوڑے ہوئے علاقوں اور بلند و بالا عمارتوں کے دورے کی وجہ سے شہر کی آبادی ایک کروڑ 67 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ 2017 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 5 ہزار تھی۔

پی بی ایس کی ٹیمیں بلند و بالا عمارتوں میں جارہی ہیں جنہیں شمار کیے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا، وہ ان عمارتوں پر بھی توجہ مرکوز کر رہے ہیں جہاں ضلعی ٹیموں نے عمارت میں رہنے والے ’تمام‘ افراد کی گنتی نہیں کی تھی۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ کراچی اور اسلام آباد سے پی بی ایس کے عہدیداروں پر مشتمل ٹیموں کو رمضان کے آخری ہفتے میں شہر میں تعینات کیا گیا تھا کیونکہ اطلاعات تھیں کہ متعدد بلند و بالا عمارات جن میں لاکھوں افراد رہائش پذیر ہیں انہیں شمار کیے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا۔

اس ضمن میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی شکایات کی گئی تھیں لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ پی بی ایس ٹیمیں تشکیل دے اور انہیں فیلڈ شمار کنندگان کے ساتھ منسلک کیا جائے۔

تاہم حکام نے اس ’تاثر‘ کی تردید کی کہ گنتی کرنے والوں نے تمام 32 ہزار بلند و بالا عمارتوں کو چھوڑ دیا تھا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہاں ’کئی‘ سہولیات ہیں جنہیں ’غیر شمار‘ یا ’نامکمل طور پر شمار کیا گیا‘ قرار دیا گیا تھا۔

جب پی بی ایس کی ٹیموں کی جانب سے دوبارہ جائزہ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی معاملات میں شمار کنندگان نے وہاں رہنے والے افراد کی گنتی کے لیے ان عمارتوں کا دورہ کرنے کی بالکل بھی زحمت نہیں کی اور انہیں صرف ’شمار‘ کے طور پر نشان زد کردیا گیا تھا۔

عہدیدار کے مطابق ’رمضان کے آخری چند دنوں کے دوران پی بی ایس کی ٹیموں نے ایسی کئی عمارتوں میں کومبنگ آپریشن کیا، ٹیموں کے کام مکمل ہونے تک فیلڈ میں رہنے کا امکان ہے‘۔

بڑھتی ہوئی تنقید

پی بی ایس کا یہ اقدام خاص طور پر کراچی میں ڈیجیٹل مردم شماری کے عمل پر بڑھتی ہوئی تنقید اور سندھ کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس عمل پر وسیع تحفظات کے درمیان سامنے آیا ہے۔

تاہم مردم شماری میں کراچی کی ’حقیقی‘ آبادی کی گنتی پیش کرنے کی مہم چلانے والی جماعتیں ابھی تک اس عمل کی تاثیر کے بارے میں محتاط نظر آتی ہیں اور شہر کی آبادی کی تعداد کے حتمی نتائج کے بارے میں یقین نہیں رکھتیں۔

متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کراچی کی آبادی ساڑھے 3 کروڑ سے کم نہیں ہے، یہ ایک دستاویزی حقیقت ہے جس کی تائید مختلف معیارات اور رپورٹس سے ہوتی ہے۔

کراچی میں رہنے والے ہر فرد کی گنتی کا مطالبہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن پہلے ہی 30 اپریل کو شاہراہ فیصل پر ’ناقص مردم شماری‘ کے خلاف ’پاور شو‘ کا اعلان کر چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں