سوات دھماکوں میں دہشت گردی کے کوئی ثبوت نہیں ملے، رپورٹ

اپ ڈیٹ 01 مئ 2023
حال ہی میں منظر عام پر آنے والے ایک غیر معروف عسکریت پسند گروپ نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
حال ہی میں منظر عام پر آنے والے ایک غیر معروف عسکریت پسند گروپ نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق سوات میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے تھانے کے اندر ہونے والے دھماکوں میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سوات میں سی ٹی ڈی تھانے کے اندر ہونے والے دھماکوں کے بعد تشکیل دی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکوں میں تخریب کاری کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

حکام نے بتایا کہ حال ہی میں منظر عام پر آنے والے ایک غیر معروف عسکریت پسند گروپ نے سوات میں سی ٹی ڈی پولیس اسٹیشن میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

تاہم سیکریٹری داخلہ اور پولیس کی اسپیشل برانچ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے جائے وقوع کا دورہ کیا اور پولیس اسٹیشن پر کسی عسکریت پسند کے حملے کے امکان کو مسترد کردیا۔

ذرائع نے اس واقعے کے عوامل کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی تاہم تفصیلی رپورٹ میں یہ سب کچھ سامنے آجائے گا۔

25 اپریل کو سی ٹی ڈی تھانے کے اندر دو زور دار دھماکوں میں 18 افراد جاں بحق اور پولیس اہلکاروں اور شہریوں سمیت 57 زخمی ہوئے، واقعے میں سی ٹی ڈی آفس، تھانے اور قریبی مسجد کی چھتیں بھی منہدم ہوگئی تھیں۔

محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے دھماکوں کی نوعیت کی تحقیقات کے لیے واقعے کے روز ہی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی جس کو ہدایت کی گئی کہ وہ واقعے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے ایک جامع رپورٹ پیش کرے۔

پیش رفت سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ ’تفصیلی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے اور ضلع سوات میں سی ٹی ڈی پولیس اسٹیشن کے اندر بارود سے بھری گاڑی یا خودکش دھماکے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، اس میں عسکریت پسندی کا کوئی عنصر ملوث نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند ہمیشہ جان و مال کے نقصان سمیت بھاری نقصان چاہتے ہیں، اسی وجہ سے عسکریت پسند ہمیشہ بال بیرنگ، شارپنل یا کوئی اور مہلک مواد استعمال کرتے ہیں لیکن فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو اس مقام پر ایک بھی بال بیرنگ یا اس کے نشانات نہیں ملے۔

ذرائع نے معاملے کی حساس نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹیم نے جائے وقوع کا دورہ کیا ہے اور انہیں تباہ شدہ عمارتوں پر بال بیرنگ کے کوئی نشانات نہیں ملے۔

انہوں نے کہا کہ ’بظاہر بارود سے بھری گاڑی یا خودکش دھماکے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، حتیٰ کہ رپورٹ کے مطابق عمارتوں کے دروازے بھی محفوظ رہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تھانے میں موجود دھماکا خیز مواد کی دیکھ بھال میں ممکنہ غفلت کے بارے میں کچھ بھی یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہاں اب کچھ بھی نہیں بچا‘۔

انہوں نے کہا کہ وہ کمرہ جہاں دھماکا خیز مواد رکھا گیا تھا اور اس سے ملحقہ تعمیرات مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں، یہ واضح ہے کہ مال خانہ میں کیس پراپرٹی کے طور پر رکھا گیا دھماکا خیز مواد دھماکے کا سبب بنا۔

اطلاعات کے مطابق سی ٹی ڈی کے دفتر کے احاطے میں ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں پولیس اسٹیشن اور سی ٹی ڈی دفتر کے علاوہ اسٹیشن کے اندر واقع ایک مسجد کی چھت بھی گر گئی۔

دھماکوں کے سبب آگ بھی لگ گئی تھی، سینئر حکام کے مطابق کم از کم 20 پولیس اہلکار چھت کے ملبے تلے دب گئے تھے جو دھماکے کی شدت کے باعث منہدم ہو گئی تھی۔

26 اپریل کو انسپکٹر جنرل آف پولیس اختر حیات خان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’دھماکے اس وقت ہوئے جب مختلف کیسز میں تحویل میں لے لیے گئے راکٹ سے چلنے والے دستی بم، بارودی سرنگیں اور دیگر اسلحہ گوادم میں بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے پھٹ گئے‘۔

اسی روز محکمہ پولیس کی جانب سے اِن دھماکوں کی ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا کہ دھماکے گودام میں بجلی کے شارٹ سرکٹ کے باعث ہوئے، لہٰذا سی ٹی ڈی تھانے پر عسکریت پسندوں کے حملے کے امکان کو مسترد کر دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں