عمران کے تمام حربے ناکام ہوئے تو اس کو بچانے نئی جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ آگئی، مریم نواز

اپ ڈیٹ 01 مئ 2023
مریم نواز نے کہا کہ آپ کو پارلیمان، آئین اور قانون کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑے گا اور اس ملک کے منتخب نمائندوں کو فیصلہ ماننا پڑے گا — فوٹو: ڈان نیوز
مریم نواز نے کہا کہ آپ کو پارلیمان، آئین اور قانون کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑے گا اور اس ملک کے منتخب نمائندوں کو فیصلہ ماننا پڑے گا — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ جب عمران خان کی حکومت گئی، اس کا لانگ مارچ، جیل بھرو تحریک، نئے چیف آف آرمی اسٹاف کے تقرر کو روکنے کی سازش ناکام ہوئی اور اسمبلیاں توڑنے کا حربہ ناکام ہوا تو اس کو بچانے نئی جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ آگئی ہے۔

لاہور میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ کچھ چہرے پرانے ہیں اور کچھ نئے شامل ہوگئے ہیں اور سب کا آپس کا مفاد ہے جس میں نواز شریف فٹ نہیں ہوتے کیونکہ وہ نہ کھاتے ہیں اور نہ ہی کھانے دیتے ہیں جبکہ یہ گروہ کھاتا بھی ہے کھلاتا بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج جب عمران خان کا ہر حربہ ناکام ہوا تو بچانے کے لیے تین رکنی بینچ آگیا، آج ملک جو بھی آئینی اور قانونی ہچکولے کھا رہا ہے اور جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اس کا ذمہ دار وہ متنازع ازخود نوٹس ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ جو مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا اس کو زبردستی تین رکنی بینچ اپنے پاس کھینچ کر گیا، آج ملک کی معاشی ترقی رک گئی ہے مگر ملک کو زبردستی کے مسائل میں الجھایا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک معزز جج نے کہا تھا کہ الیکشن کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس بات کو دیکھنا ہوگا کہ اسمبلی کیوں توڑی گئی، اس وقت اسمبلی بدنیتی سے توڑی گئی کیونکہ پرویز الہٰی اسمبلی توڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن زبردستی ان سے اسمبلی توڑنے کو کہا گیا۔

ان کا کہنا تھا اصل بات کا بھانڈا خود اس فتنہ خان نے پھوڑا کہ حکومت ختم ہونے کے بعد ایوان صدر میں اس کی اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تھی اور صدر کی موجودگی میں جنرل (ر) باجوہ نے اسمبلیاں توڑنے کا کہا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر نے کہا کہ آج یہ سوال کرنا بنتا ہے کہ کس منصوبے کے تحت آپ کو کہا گیا کہ اسمبلی توڑیں اور بات یہاں ختم نہیں ہوتی، بات یہ بھی ہے کہ اسمبلی توڑی جائے گی اور سپریم کورٹ میں سہولت کار بیٹھے ہیں جو الیکشن آپ کے سامنے رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس سازش کی وجہ سے جو ناانصافیاں ہوئیں، جس طرح سے سو موٹو لیے گئے، قانون، انصاف، آئین کا تماشا بنایا گیا اس میں صرف عوام اور سیاستدان نہیں بولے بلکہ سپریم کورٹ کے ججز بھی بول اٹھے۔

مریم نواز نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اتنی بڑی جنگ شروع ہوگئی کہ پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھک گیا اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز نے اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی اور پھر بار کونسلز نے بھی اس پر آواز اٹھائی۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو یہ سامنے آنا چاہیے کہ جنرل (ر) باجوہ جس کو آپ میر جعفر اور غدار کہتے تھے ان کے کہنے پر آپ نے اسمبلیاں کیوں توڑی، منصوبہ صرف اسمبلیاں توڑنے تک نہیں تھا بلکہ منصوبہ یہ بھی تھا کہ تم اسمبلیاں توڑو تین رکنی بینچ تمہیں الیکشن دے گا۔

انہوں نے کہا کہ آج جب اکتوبر میں نئے انتخابات ہونے جارہے ہیں تو جو لوگ آر ٹی ایس نہیں بٹھا سکتے انہوں نے عمران خان کو لانے کا یہ منصوبہ بنایا ہے لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار عمران خان کو لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے، قدرت کا مکافات عمل ہے کہ جس شخص نے نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزیر اعظم کے دفتر سے نکالا آج اس کا بیٹا ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کی رشوت لیتے پکڑا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ثاقب نثار بتائے کہ ایک ٹکٹ کے لیے ایک کروڑ 20 لاکھ روپے لیے ہیں تو پاناما کیس میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے پر کتنے لیے ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں تین رکنی بینچ سے پوچھتی ہوں کہ آپ کس کے لیے کر رہے ہیں، ایک ایسے شخص کے لیے جس کے پاس نہ کردار ہے نہ کارکردگی، مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جنگ شہباز شریف کے لیے نہیں بلکہ اگلی تقررریاں روکنے کے لیے ہے کیونکہ یہ گروہ سمجھتا ہے کہ اگر ان کا بندہ نہیں آیا تو ان کی پوچھ گچھ شروع ہو جائے گی، لہٰذا یہ سب عمران خان سمیت احتساب سے بچنا چاہتے ہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حوالے سے لائے گئے قانون پر ان (ججز) کو اس لیے تکلیف ہے کیونکہ یہ آپ کے ون مین شو اور ناانصافیوں کو ختم کرتا ہے، آپ جو مرضی کرلیں، آئین نے پارلیمان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اس ملک کی بہتری کے لیے قانون سازی کرے اور وہ قانون سازی کرکے بھی رہے گی جن پر آپ کو عملدرآمد بھی کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو پارلیمان، آئین اور قانون کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑے گا اور اس ملک کے منتخب نمائندوں کو فیصلہ ماننا پڑے گا اور پارلیمان اپنا فیصلہ تسلیم کروا کر رہے گی کیونکہ اس ملک کا آئین بھی سپریم ہے اور اس آئین نے جس پارلیمان کو طاقت دی ہے وہ بھی سپریم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مہذب معاشرے میں اگر کسی شخص کے خلاف اتنے الزامات اور ثبوت سامنے آتے تو وہ عزت سے مستعفی ہو کر گھر بیٹھتا لیکن یہ آج بھی وہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں