توشہ خانہ کیس میں عمران خان پر فرد جرم عائد

اپ ڈیٹ 10 مئ 2023
توشہ خانہ کیس کی سماعت پولیس لائنز ہیڈکوارٹرز میں قائم عدالت کے جج ہمایوں دلاور خان نے کی — فائل فوٹو: عمران خان/فیس بک
توشہ خانہ کیس کی سماعت پولیس لائنز ہیڈکوارٹرز میں قائم عدالت کے جج ہمایوں دلاور خان نے کی — فائل فوٹو: عمران خان/فیس بک

توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان پر فرد جرم عائد کردی گئی۔

توشہ خانہ کیس کی سماعت پولیس لائنز ہیڈکوارٹرز میں قائم عدالت کے جج ہمایوں دلاور خان نے کی۔

قبل ازیں القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار عمران خان کو آج احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے روبرو پیش کیا گیا تھا جہاں ان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر 8 روز کا ریمانڈ منظور کرلیا گیا۔

القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد توشہ خانہ کیس کی سماعت ہوئی جہاں عمران خان کو پیش کیا گیا۔

سابق وزیراعظم کے وکیل نے بتایا کہ عمران خان پر فرد جرم مؤخر کرنے کی استدعا کی گئی تھی لیکن سیشن جج نے درخواست مسترد کردی۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے فرد جرم عائد کرنا چاہی، ہم بائیکاٹ کرکے باہر آگئے۔

واضح رہے کہ رواں ماہ 5 مئی کو مقامی عدالت نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں ان کے وکلا کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں اور عمران خان کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے 10 مئی کو (آج) طلب کیا تھا۔

احتساب عدالت کو آج سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر پولیس لائنز اسلام آباد میں منتقل کیا گیا تھا جہاں گیسٹ ہاؤس کو عدالت کا درجہ دیا گیا، علاوہ ازیں آج ہونے والی توشہ خانہ کیس کی سماعت بھی پولیس لائنز منتقل کی گئی۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں