انٹرنیٹ کی بندش سے معمولات زندگی متاثر، فوری بحالی کا مطالبہ

11 مئ 2023
حکومت نے عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے شروع ہونے کے بعد انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تھی—فائل فوٹو: شٹراسٹاک
حکومت نے عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے شروع ہونے کے بعد انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تھی—فائل فوٹو: شٹراسٹاک

شہریوں اور کاروباری حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ موبائل ڈیٹا سروسز کو فوری طور پر بحال کیا جائے جس کی بندش سے معمولات زندگی متاثر ہورہے ہیں اور معاشی لحاظ سے شہریوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے منگل (9 مئی) کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے شروع ہونے کے بعد انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تھی، انٹرنیٹ کی بندش سے لاکھوں شہری متاثر ہو رہے ہیں جو روزگار سے لے کر بلز کی ادائیگی اور گروسری خریدنے تک ہر چیز کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں۔

کاروباری برادری اور سول سوسائٹی کے 100 سے زائد اراکین نے ایک مشترکہ بیان میں ملک گیر احتجاج کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم انٹرنیٹ کی جزوی اور مکمل بندش اور مخصوص ایپلی کیشنز کو بلاک کیے جانے سے سخت پریشان ہیں اور اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی بندش اور انٹرنیٹ سروسز کو بلاک کرنا یا فلٹر کرنا پرامن احتجاج کے حق اور اظہار رائے کی آزادی کو بلاجواز محدود کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کروڑوں پاکستانی ایک دوسرے سے رابطے اور ضروری کاروباری سرگرمیوں کے لیے انٹرنیٹ سروسز پر انحصار کرتے ہیں، ان سروسز کو مسدود کرکے، فلٹر کرکے یا بند کر کے حکومت شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کررہی ہے، اس کے سبب معاشی بے یقینی کی صورتحال پیدا ہورہی ہے اور صحت، ایمرجنسی سروسز اور معاشی معمولات میں خلل پیدا ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی بندش نے پاکستان میں موجود اُن بزنس اسٹارٹ اپس پر منفی اثر ڈالا ہے جنہوں نے 2022 اور 2023 کے دوران 70 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کو راغب کیا اور ملک بھر میں انٹرپرینیورشپ، روزگار کے مواقع اور ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، بندش سے متاثرہ افراد میں سیکڑوں ہزاروں فری لانسرز اور ڈیجیٹل کریئٹرز بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکومت پاکستان سے ان پابندیوں کو فوری طور پر ہٹانے کا بھرپور مطالبہ کرتے ہیں جن کا مقصد شہریوں کو آن لائن معلومات تک رسائی اور رابطے کے حق سے محروم کرنا ہے، ہم حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ انٹرنیٹ تک رسائی کو ایک بنیادی بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جائے جسے اچانک کسی بھی وقت نہیں چھینا جا سکتا۔

انٹرنیٹ کی بندش سے عام لوگوں کے علاوہ سیکڑوں کمپنیاں بھی متاثر ہوئی ہیں، بائیکیا، کریم اور اِن ڈرائیو جیسی کمپنیوں نے بھاری نقصان اٹھایا ہے کیونکہ ان کے صارفین (ڈرائیور اور مسافر دونوں کو) موبائل ڈیٹا کی لازمی ضرورت ہوتی ہے۔

اِن ہی میں سے ایک کمپنی کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ انٹرنیٹ سروس میں خلل سے نہ صرف ہمارے رائیڈرز متاثر ہورہے ہیں بلکہ صارفین بھی اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے سواریوں کے حصول میں شدید دشواری کا سامنا کررہے ہیں۔

انٹرنیٹ سروسز کی یہ بندش فوڈ پانڈا اور چیتے جیسی آن لائن فوڈ ڈیلیوری سروسز کو بھی متاثر کررہی ہے، ان کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والے سیکڑوں ریسٹورنٹس کے علاوہ تقریباً 6 ہزار گھریلو باورچیوں کو بھی اس بندش کا نقصان پہنچا ہے۔

’جیز کیش‘ اور ’ایزی پیسہ‘ جیسے ڈیجیٹل والیٹس نے تصدیق کی ہے کہ انٹرنیٹ سروسز معطل ہونے کے بعد 24 گھنٹوں کے دوران معمول کی لین دین/ادائیگیوں کی تعداد میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے، دکاندار/ایجنٹس اِن ڈیجیٹل والیٹ سروسز کا استعمال مِنی بینکوں کے طور پر کرتے ہیں اور اس کے لیے عموماً موبائل ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں۔

ٹیلی کام کمپنیوں نے بھی موبائل انٹرنیٹ سروسز معطل کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ’جاز پاکستان‘ کے سی ای او عامر ابراہیم نے ٹوئٹ کیا کہ ’انٹرنیٹ بند کرنا کسی بھی چیز کا حل نہیں ہے، موبائل انٹرنیٹ ایمرجنسیز کے دوران اہم ضرورت اور پیداواری صلاحیت کا ایک اہم ذریعہ ہے لیکن تقریباً 24 گھنٹوں سے ساڑھے 12 کروڑ پاکستانی اس کے بغیر رہے ہیں‘۔

انہوں نے ’بزنس ریکارڈر‘ کی ایک خبر کا بھی حوالہ دیا، جس کے مطابق موبائل انٹرنیٹ سروسز کی صرف ایک روز معطلی سے ٹیلی کام آپریٹرز کو 82 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ حکومت کو ٹیکس ریونیو میں تقریباً 28 کروڑ 70 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ معیشت پر متعدد تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں لیکن اس کے سبب عام شہریوں کو پہنچنے والی تکلیف کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔

چیئرمین پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن محمد زوہیب خان نے بھی موبائل ڈیٹا سروس کی معطلی پر کڑی تنقید کی اور اسے غیردانشمندانہ فیصلہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’آئی ٹی انڈسٹری منگل کی شام سے مکمل طور پر ٹھپ ہوچکی ہے، انٹرنیٹ ہماری لائف لائن، ہمارا دفتر، ہمارا مواصلاتی انفرااسٹرکچر ہے، آئی ٹی انڈسٹری اس کے بغیر کام نہیں کر سکتی‘۔

انہوں نے کہا کہ ابھرتی ہوئی سیاسی صورتحال کی وجہ سے ملک میں موبائل انٹرنیٹ سروسز کی مکمل بندش اور فکسڈ-لائن انٹرنیٹ کی رفتار سست کرنے کا فیصلہ مشاورت کے بغیر کیا گیا ہے۔

زوہیب خان نے کہا کہ آئی ٹی انڈسٹری اور اس کی سروسز (آئی ٹی ای ایس) پہلے ہی حکومت کے غلط اور متضاد پالیسیوں کی وجہ سے دباؤ میں تھیں اور موجودہ سیاسی بحران نے آئی ٹی انڈسٹری کے کام کو مکمل طور پر معطل کردیا ہے، آئی ٹی انڈسٹری سے جڑے بیشتر پیشہ ور افراد مختلف وجوہات کی وجہ سے گھر سے کام کر رہے ہیں جنہیں اںٹرنیٹ سروسز کی حالیہ بندش وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو فوری طور پر انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کی ہدایت کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں