پاکستان میں جمہوریت پست ترین سطح پر، عدلیہ ہی واحد امید ہے، عمران خان

اپ ڈیٹ 14 مئ 2023
عمران خان نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ میرے اغوا کا حکم آرمی چیف نے دیا تھا — فوٹو: اسکرین شاٹ/اسکائی نیوز
عمران خان نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ میرے اغوا کا حکم آرمی چیف نے دیا تھا — فوٹو: اسکرین شاٹ/اسکائی نیوز

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ’پست ترین سطح‘ پر ہے اور عدلیہ ہی ’واحد امید‘ ہے۔

’اسکائی نیوز‘ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے وقت میں نے کمانڈو جیسے دکھنے والے ڈنڈا بردار لوگوں کو اچانک حملہ کرتے ہوئے دیکھا، مجھے لگا یہ لوگ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق مجھے تحفظ دینے کے لیے آئے ہیں کیونکہ میری جان کو خطرات لاحق ہیں، لیکن وہ لوگ اس طرح حملہ آور ہوئے جیسے وہاں کوئی دہشت گرد موجود ہے اور پھر مجھے پتا چلا کے یہ لوگ مجھے ہی گرفتار کرنے آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میرے لیے یہ سب حیران کن تھا کیونکہ انہوں نے لوگوں پر بری طرح تشدد کیا اور مجھے دہشت گردوں کی طرح گرفتار کرکے لے گئے، مجھے وہاں معلومات تک کوئی رسائی حاصل نہیں تھی اس لیے مجھے کوئی علم نہیں تھا کہ باہر کیا ہورہا ہے، انہوں نے مجھے اغوا کرلیا تھا۔

’اغوا‘ کیے جانے کی اصطلاح استعمال کرنے پر اینکر کی جانب سے سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ مجھے آرمی نے اغوا کیا تھا اور آرمی چیف کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا، آرمی اسی طرح کام کرتی ہے، یہ واضح ہے کہ میرے اغوا کا حکم آرمی چیف نے دیا تھا۔

سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر تحفظ فراہم کرنے کے لیے گرفتار کیے جانے کے حکومتی مؤقف پر تبصرہ کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ یہ بےوقوفانہ بات ہے، پہلے وہ میرے گھر پر بھی حملہ کرچکے تھے، وہ چاہتے تھے کہ میں مجسٹریٹ اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہوں جس کی میں پہلے ہی یقین دہانی کروا چکا تھا اس لیے قانون کے مطابق وہ اس یقین دہانی کے بعد مجھے گرفتار نہیں کر سکتے تھے، میں نے ضمانتی بانڈ بھی مہیا کیا مگر وہ انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور میرے گھر پر حملہ کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت ’انتخابات سے خوفزدہ‘ ہے اور اسے انتخابات میں ان کی پارٹی کے ذریعے اپنا صفایا ہوجانے کا خدشہ ہے، لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر میں جیل میں ہوں یا مارا جاؤں تو وہ انتخابات کی اجازت دیں گے، میری پارٹی کی بیشتر قیادت کو بھی انہوں نے گرفتار کرلیا ہے۔

دوبارہ گرفتار کیے جانے کے امکان سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ میں ذہنی طور پر (دوبارہ) جیل جانے کے لیے تیار ہوں، میں نے اسلام آباد جانے سے قبل بھی یہی کہا تھا، لیکن اصل مدعا یہ ہے کہ وہ کسی قانون کی خلاف ورزی پر نہیں بلکہ انتخابی دوڑ سے باہر کرنے کے لیے گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب میں عوام کے پاس جاؤں گا اور بدھ سے عوامی رابطہ مہم شروع کروں گا، ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور یہ امید کرتے ہیں کہ عدالت 3 ہفتوں کے اندر انتخابات کی کوئی تاریخ دے دے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میں کچھ کیسز میں ضمانت لینے گیا تو انہوں نے مجھے دیگر کیسز میں گرفتار کرلیا، ایسے وقت میں عدلیہ ڈٹ گئی جس نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو حیران کردیا، جج نے مجھے گرفتار کرنے سے روک دیا کیونکہ اس سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی، عدلیہ نے اس حوالے سے سخت مؤقف اختیار کیا، یہ ایک نئی تاریخ کا مشاہدہ کر رہے ہیں، پاکستان میں ایک نئی تاریخ لکھی جارہی ہے۔

گرفتاری کے ردعمل میں فوجی تنصیبات سمیت سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچائے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ میں نے ہمیشہ ہر قسم کے انتشار کی مخالفت کی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں آنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے اس دعوے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہرگز نہیں، مجھے اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں نہیں لائی تھی، تمام سروے کے مطابق میری جماعت پاکستان کی سب سے مقبول جماعت تھی، فرق صرف یہ تھا کہ آرمی نے میری مخالفت نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات کا سال ہے، رواں برس انتخابات ہونے ہیں، پاکستان کے مسائل کا واحد حل الیکشنز ہیں، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہونے دیں اور لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں کہ وہ کس کو مینڈیٹ دینا چاہتے ہیں اور یوں پاکستان مستحکم ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سمیت پی ڈی ایم اتحاد خوفزدہ ہے کہ میں انتخابات میں کلین سوئپ کرلوں گا، 37 ضمنی انتخابات میں سے 30 ضمنی انتخابات میں ہم نے کامیابی حاصل کی ہے، اس لیے وہ عام انتخابات کو مؤخر کرنا چاہتے ہیں، ہمارا مطالبہ صرف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں جمہوریت پست ترین سطح پر ہے، ہمارے تمام بنیادی حقوق سلب کیے جاچکے ہیں، کبھی کسی سیاسی شخصیت پر 150 سے زائد مقدمات درج نہیں کیے گئے نہ ان کے گھروں پر بار بار چھاپے مارے گئے، ہمیں واحد امید صرف عدلیہ سے ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں