سوڈان: سعودی عرب میں جاری مذاکرات کے باعث حریف جرنیل ایک ہفتے کی جنگ بندی پر رضامند

اپ ڈیٹ 21 مئ 2023
اس سے قبل کی گئی متعدد جنگ بندیوں کی منظم طور پر خلاف ورزی کی گئی ہے— تصویر: رائٹرز
اس سے قبل کی گئی متعدد جنگ بندیوں کی منظم طور پر خلاف ورزی کی گئی ہے— تصویر: رائٹرز

سعودی عرب میں جاری مذاکرات کے باعث حریف جرنیلوں کی جانب سے آئندہ ایک ہفتے کی جنگ بندی پر رضامندی کے چند گھنٹے بعد سوڈان کے دارالحکومت کے رہائشی اتوار کی صبح ایک بار پھر شدید جھڑپوں سے بیدار ہوئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق امریکا اور سعودی عرب نے مشترکہ بیان میں کہا کہ جنگ بندی پیر کی رات 9 بج کر 45 منٹ سے نافذ العمل ہو گی۔

فوج کے سربراہ عبدالفتاح البرہان اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے کمانڈر محمد ہمدان ڈگلو کے درمیان اقتدار کی جاری کشمکش کے دوران اس سے قبل کی گئی متعدد جنگ بندیوں کی منظم طور پر خلاف ورزی کی گئی ہے۔

جدہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد بیان میں مزید کہا گیا کہ جنگ بندی سات روز تک نافذ العمل رہے گی اور دونوں فریقین کی رضا مندی سے اس معاہدے میں مزید توسیع کی جا سکتی ہے۔

5 ہفتے قبل لڑائی شروع ہونے کے بعد سے متعدد جنگ بندیوں کی خلاف ورزی کی جا چکی ہے جس کا اعتراف سعودی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز سرکاری سعودی پریس ایجنسی کی جانب سے شائع ہونے والے ایک بیان میں کیا۔

گزشتہ جنگ بندیوں کے برعکس جدہ میں طے پانے والے معاہدے پر فریقین نے دستخط کیے تھے اور اسے امریکا-سعودی اور عالمی حمایت یافتہ جنگ بندی کی نگرانی کے طریقہ کار کی حمایت حاصل ہوگی، مشترکہ بیان میں اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

کئی ہفتوں سے جاری شدید لڑائی کے دوران لگ بھگ 10 ہزار افراد ہلاک اور 10 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کو پانی، بجلی یا ادویات تک بمشکل ہی رسائی حاصل ہے۔

اقوام متحدہ کی امیگریشن ایجنسی نے ایک بیان میں کہا کہ جنگ سے سوڈان کی سرحد کے قریب 3 لاکھ 30 ہزار لوگ بے گھر ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں سوڈانی ملک چھوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ سوڈان میں عارضی طور پر رہنے والے مہاجرین سمیت 8 لاکھ افراد وہاں سے نکل سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں گزشتہ دو ہفتوں میں ہزار وں لوگ سرحد پار کرکے مصر میں داخل ہو چکے ہیں جس کے لیے انہوں نے ہزاروں ڈالر ادا کیے ہیں۔

جنگ بندی معاہدے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی تقسیم، ضروری خدمات کی بحالی، ہسپتالوں اور ضروری عوامی مراکز سے فورسز کی واپسی پر بھی زور دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سوڈان کی فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں نظم و نسق بگڑ چکا ہے خوراک، نقدی اور ضروری اشیا کے ذخیرے تیزی سے کم ہو رہے ہیں، بڑے پیمانے پر لوٹ مار نے بینکوں، سفارت خانوں، امدادی گوداموں اور یہاں تک کہ گرجا گھروں کو بھی متاثر کیا ہے امدادی تنظیموں نے کہا ہے کہ وہ محفوظ راستے اور عملے کے لیے حفاظتی ضمانتوں کی عدم موجودگی میں دارالحکومت خرطوم میں خاطر خواہ مدد فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

خیال رہے کہ سوڈان میں عمر البشیر 1989 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار میں آئے تھے اور 2019 میں ہونے والی عوامی بغاوت میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا، دو سال بعد آر ایس ایف کی حمایت سے جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں فوج نے بغاوت کر کے اقتدار سنبھال لیا تھا۔

فوج اور آر ایس ایف کے رہنما جنرل محمد حمدان دیگلو کے درمیان موجودہ تنازع اس بات پر اختلافات کے باعث شروع ہوا کہ پلان کے مطابق سول حکمرانی کی بحالی کے تحت آر ایس ایف کو فوج میں کتنی جلدی ضم کیا جائے۔

دی ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت نے عمر البشیر اور علی ہارون پر 2003 اور 2004 میں دارفر میں شہریوں پر حملہ کرنے کے لیے ملیشیاز کو منظم کرنے کا الزام لگایا ہے، آئی سی سی نے عمر البشیر، علی ہارون اور حسین کی جیل سے منتقلی پر رد عمل دینے سے انکار کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں