چین کے علاوہ دیگر ممالک بھی مقبوضہ کشمیر میں جی20 اجلاس میں شرکت سے گریزاں

اپ ڈیٹ 22 مئ 2023
چین، سعودی عرب اور ترکیہ جی-20 ممالک کی تنظیم کے اراکین ہیں—تصویر: رائٹرز
چین، سعودی عرب اور ترکیہ جی-20 ممالک کی تنظیم کے اراکین ہیں—تصویر: رائٹرز

سیاحت پر جی-20 ممالک کے ورکنگ گروپ کا اجلاس آج سے منعقد ہو رہا ہے تاہم چین سمیت اہم اراکین بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں اجلاس کے انعقاد کی وجہ سے اس میں شرکت سے گریزاں ہیں۔

خیال رہے کہ سری نگر 22 سے 24 مئی تک جی20 ممبران کے ٹورزم ورکنگ گروپ میٹنگ کی میزبانی کرے گا جو ستمبر میں نئی دہلی میں منعقد ہونے والے جی20 سربراہی اجلاس سے قبل اجلاسوں کے سلسلے کا حصہ ہے۔

بھارتی اخبار دی ہندو نے ایک رپورٹ میں کہا گیا مسلم بلاک کے اہم ممالک ترکیہ، سعودی عرب اور مصر نے اب تک اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی ہے جس سے اشارہ ملتا ہے کہ شاید وہ بھی اجلاس میں شرکت نہ کریں۔

بھارت کے وزیر سیاحت اروند سنگھ نے دہلی میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ جی-20 ممالک میں سے چین، ترکیہ اور سعودی عرب نے اجلاس میں شریک ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے علاوہ دیگر ممالک جن کو مدعو کیا گیا ان میں مصر نے اب تک اپنا اندراج نہیں کرایا۔

بعد ازاں چین نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وینگ ویبن نے کہا تھا کہ ’چین سختی سے جی20 کا کسی قسم کا اجلاس متنازع خطے میں منعقد کرنے کی مخالفت اور ایسے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا‘۔

خیال رہے کہ چین، سعودی عرب اور ترکیہ جی-20 ممالک کی تنظیم کے اراکین ہیں جبکہ مصر کو خصوصی طور پر دعوت دی گئی تھی۔

متعدد بھارتی صحافیوں نے بھی بھارتی حکومت کے اس منصوبے پر سوالات اٹھائے ہیں۔

دنیا کی بڑی معیشتوں پر مشتمل گروپ جی 20 کا اجلاس ہر سال ہوتا ہے اور ہر سال اس کی میزبانی اور سربراہی علیحدہ ملک کرتا ہے۔

رواں برس جی 20 کی صدارت بھارت کے حصے میں آئی تھی، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کشمیر پر قبضے اور 5 اگست 2019 کے اقدام کو عالمی سطح پر قابل قبول بنانے کے لیے جی 20 اجلاس کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پاکستان نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جی-20 اجلاس بلانےکی تجویز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ بھارت کا غیر ذمہ دارانہ اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اس کے علاوہ اقلیتی مسائل پر اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر فرنینڈ ڈی ورینس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 22 تا 24 مئی کو مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کے انعقاد سے بھارتی حکومت اس صورتحال کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے جسے بعض حلقوں نے فوجی قبضے کے طور پر بیان کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں