ذہن کو غیر فعال کرنے والی بیماری ’الزائمر‘ کیوں ہوتی ہے، اگرچہ اس کا واضح جواب طبی ماہرین کے پاس بھی نہیں ہے، تاہم اس کی چند وجوہات کو اس کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔

لیکن اب ایک تازہ تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ممکنہ طور پر ’الزائمر‘ کی بیماری کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کے جینیاتی مسائل سے بھی ہو سکتی ہے۔

طبی جریدے ’جاما نیٹ ورک‘ کے مطابق جینیاتی کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کا ’الزائمر‘ سے تعلق دریافت کرنے کے لیے ماہرین نے ساڑھے چار لاکھ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔

ماہرین نے جن افراد کا جائزہ لیا، ان کا تعلق یورپ کے 11 مختلف ممالک سے تھا اور ان میں سے 40 ہزار کے قریب افراد ایسے تھے جن میں ’الزائمر‘ کی تشخیص ہو چکی تھی جب کہ چار لاکھ کے قریب افراد میں الزائمر جیسی کوئی بیماری نہیں تھی۔

ماہرین نے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا جو افراد الزائمر کا شکار ہوئے تھے ان میں اچھے کولیسٹرول سمجھے جانے والے جسے عام طور پر ایچ ڈی ایل کہا جاتا ہے اس کی مقدار زیادہ تھی۔

اسی طرح الزائمر کا شکار ہونے والے افراد میں سسٹولک بلڈ پریشر یعنی نچلے بلڈ پریشر کی سطح بھی زیادہ پائی گئی۔

الزائمر کے شکار تمام افراد میں زیادہ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کا مسئلہ جینیاتی تھا یعنی انہیں مذکورہ مسئلہ خاندانی بیماریوں اور پیچیدگیوں سے ورثے میں ملا۔

ماہرین کے مطابق عام طور پر اچھا کولیسٹرول یعنی ایچ ڈی ایل کا زیادہ ہونا فالج اور ہارٹ اٹیک جیسی بیماریوں سے بچاتا ہے، تاہم اسے ذہنی اور دماغی بیماریوں کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح ماہرین نے بتایا کہ نچلے بلڈ پریشر کے 10 یونٹ بڑھنے سے بھی الزائمر کی بیماری بڑھنے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن یہ مسئلہ ان افراد کو ہو سکتا ہے جنہیں بلڈ پریشر کا جینیاتی مسئلہ ہو۔

ساتھ ہی ماہرین نے تحقیق میں واضح کیا کہ مذکورہ تحقیق کو مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ اس میں شامل تمام افراد ایک ہی یعنی یورپ کے خطے سے تعلق رکھتے تھے لیکن اس حوالے سے مزید تحقیق کی جانی چاہئیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اچھے کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کا الزائمر سے کیا تعلق ہے؟

خیال رہے کہ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ عام طور پر الزائمر لڈ پلازما میں موجود پروٹین’ایمیلوئیڈ بیٹا’ کے بڑھنے سے ہوتا ہے اور یہ پروٹین بعض اوقات ایک دہائی قبل ہی بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔

اگرچہ اس بیماری کا کوئی مستند علاج نہیں ہے، تاہم میڈیکل ماہرین مختلف ادویات اور ایکسرسائیز کے ذریعے اس کی شدت کو کم کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

یہ مرض دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے، یاداشت ختم ہوجاتی ہے، اکثر یہ معمر افراد کو شکار بناتا ہے مگر کسی بھی عمر کے افراد کو یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے اور جیسا بتایا جاچکا ہے کہ یہ ناقابل علاج ہے تو اس کو ابتدائی مرحلے میں پکڑ لینا اس سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں