’پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون بنا کر عدالتی اختیار پر تجاوز کیا‘

اپ ڈیٹ 30 مئ 2023
عدالت عظمیٰ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئی ہیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئی ہیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کو عدالتی اختیار پر پارلیمان کا تجاوز قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ 2023 سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے تحریری جواب عدالت عظمیٰ میں جمع کرایا۔

اپنے جواب میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون بنا کر عدالتی اختیار پر تجاوز کیا، یہ قانون آئینی اصول کی خلاف ورزی ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کے پاس رولز میں ترمیم کے خصوصی اختیارات ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کے سیکشنز 2، 4 اور 6 بینچز کی تشکیل سے متعلق ہیں۔

عابد زبیری نے کہا کہ قانون کے سیکشن 2، 4 اور 6 آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات پر تجاوز ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئینی اختیارات کی تقسیم کا اصول پارلیمنٹ کو عدالتی اختیارات پر تجاوز سے منع کرتا ہے، آرٹیکل 191 کو الگ نہیں آئین کے عدلیہ سے متعلق دیگر آرٹیکلز کے ساتھ پڑھا جائے۔

صدر سپریم کورٹ عابد زبیری نے تحریری جواب میں ملکی و غیر ملکی عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کے خلاف دائر درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف دائر درخواستوں میں پارلیمنٹ سے منظور ترامیمی ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

عدالت عظمیٰ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں ہیں، 2 درخواستیں وکلا اور 2 درخواستیں شہریوں کی جانب سے دائر کی گئیں۔

درخواست گزاروں نے مؤقف اپنایا ہے کہ پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں، سپریم کورٹ کے رولز 1980 میں بنے تھے، آرٹیکل 183/3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی حق نہیں دیا جاسکتا۔

سپریم کورٹ سے متعلق بل کا قانون بننے تک کا سفر

خیال رہے کہ 28 مارچ کو وفاقی کابینہ کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دی گئی تھی، جس کے بعد 29 مارچ کو قومی اسمبلی سے اسے متعدد ترامیم کے بعد منظور کرلیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی میں 29 مارچ کو مذکورہ بل وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا تھا جسے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا تھا۔

بل کی منظوری کے وقت حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی تھی، تاہم چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔

بعد ازاں 30 مارچ کو سینیٹ سے بھی یہ بل اکثریت رائے سے منظور ہوگیا تھا۔

سینیٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے تھے، جبکہ بل کی شق وار منظوری کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت اپوزیشن ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑی اور احتجاج کیا اور شور شرابا کیا تھا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد 30 مارچ کو باقاعدہ توثیق کے لیے صدر مملکت کو ارسال کردیا تھا۔

تاہم صدر مملکت نے 8 اپریل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اختیارات سے باہر قرار دیتے ہوئے نظرثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔

صدر مملکت عارف علوی نے کہا تھا کہ مذکورہ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، لہٰذا بل کی درستی کے بارے میں جانچ پڑتال کے لیے دوبارہ غور کرنا چاہیے، اس لیے واپس کرنا مناسب ہے۔

صدر مملکت کی جانب سے مذکورہ بل واپس بھیجے جانے کے بعد 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسے دوبارہ منظور کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں 21 اپریل کو صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر یہ بل از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا تھا اور بل منظوری کے تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے باقاعدہ نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں