کفیل بھائی، لیفٹ آرم اسپن باؤلر
پاکستان میں سواریوں خصوصاً ٹرکوں اور بسوں کو جس طرح چلتا پھرتا فن پارہ بنایا جاتا ہے،اس طرح کا 'سلوک' شاید ہی کسی ملک میں مشینوں کے ساتھ کیا جاتا ہو۔ تفنن برطرف، لیکن آرٹ کے یہ چلتے پھرتے نمونے دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان ہیں۔
دو ہزار چھ کے دولت مشترکہ کھیل میں الوداعی خراج تحسین لیتی ملبورن کی ٹرام وے ہو یا اولڈ ٹریفرڈ کے میدان میں پاکستانی کرکٹ تماشائیوں کو لانے والی بس، فرانس کی 'شہزادی' ہو یا جرمنی کی 'پاکستانی مرسڈیز' یہ فن اب ملک کی سیاسی سرحدوں کو عبور کر کے عالمی جمالیاتی سرحدوں میں داخل ہو چکا ہے۔
کراچی سے پشاور تک ملک بھر کی سڑکوں پر رواں دواں یہ ٹرک آرٹ کے ساتھ ساتھ 'نظریات کی ترویج' کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ٹرک والوں کی اپنی شخصیات بھی ہیں، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسے مشہور زمانہ رہنماؤں سے لے کر عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور جلال چانڈیو جیسے مقامی گلوکاروں تک، ناموں کی اک طویل فہرست جن کی شبیہ ٹرکوں کے پیچھے بنی ہوتی ہے۔
لیکن ٹرکوں اور شاہراہوں کی اس انوکھی دنیا میں مذکورہ بالا تمام شخصیات سے زیادہ مشہور ایک 'کرکٹر' ہیں، جنہیں ٹرکوں کی دنیا کا بے تاج بادشاہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔
اک ایسا 'کھلاڑی' جس نے کبھی پاکستان تو کجا، کبھی اپنے صوبے یا شہر کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی کوئی مقابلہ نہیں کھیلا، لیکن ان کی شہرت قومی شاہراہوں کی بدولت پھیلی ہوئی ہے۔
اگر آپ نے کبھی پاکستان میں بذریعہ سڑک طویل سفر کیا ہو تو آپ کو قومی شاہراہ پر رواں دواں ٹرکوں کے پیچھے ان کا نام لکھا ضرور نظر آیا ہوگا "کفیل بھائی، لیفٹ آرم اسپن باؤلر"۔ یہ شہرۂ آفاق جملہ اس 'کھلاڑی' سے منسوب ہے جس نے گیند سے نہیں بلکہ رنگ و برش کے ذریعے سینکڑوں وکٹیں حاصل کر ڈالی ہیں۔
انیس سو اٹھاون میں سندھ کے شمالی ضلع گھوٹکی میں پیدا ہونے والے کفیل احمد صدیقی نے جوانی کے ایام ہاتھوں میں رنگ اور برش لیے ٹرکوں کے پیچھے دوڑتے گزارے ۔ ستر کی دہائی میں جب کفیل کی کرکٹ 'عروج' پر تھی تو وہ انگلستان کے اُس عظیم اسپنر سے مرعوب تھے جن کے پاس اب بھی ایک میچ میں سب سے زیادہ انیس وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ ہے، جی ہاں جم لیکر! کفیل بائیں ہاتھ سے اسپن باؤلنگ کرواتے اور ان کا ہدف تھا قومی ٹیم میں شامل ہو کر اپنے اِس ہیرو کا ریکارڈ توڑنا اور یوں پاکستان کا نام روشن کرنا۔
لیکن حقیقت اس سے کوسوں دور تھی، اس لیے کفیل کا خواب پورا نہ ہو سکا لیکن انہوں نے شہرت کی ان بلندیوں کو ضرور چھوا، جس کی تمنا ان کے دل میں تھی اور بلندیوں کے اس سفر کا آغاز ایک انوکھے خیال سے ہوا۔ ابتدا میں تو سخت مشکلات پیش آئیں۔ کفیل بھائی ایک ٹرک پر نام لکھنے گئے تو اس کے ڈرائیورز نے انہیں گھیر لیا۔ کفیل بھائی کے اس جواب پر کہ میرے نام لکھنے سے ان کی ٹرک کی رفتار بھی بہتر ہوگی اور وہ ایندھن بھی کم خرچ کرے گا، ڈرائیورز ہنس پڑے اور انہوں نے 'پاگل' سمجھ کر لکھنے کی اجازت دے دی، پھر تو گویا کفیل بھائی کی بھی ہمت بندھ گئی۔
پھر قومی شاہراہ سے گھوٹکی پہنچنے والی کوئی سواری ایسی نہ ہوتی جو اُن کی دست برد سے محفوظ ہو لیکن ان کا محبوب ترین 'میڈیم' ٹرک تھا۔
بعد ازاں یہی ٹرک تھے، جن کے ڈرائیورز نے اپنے نئے دوست کو پاکستان کے تمام صوبوں کی سیر بھی کروائی۔وہ کراچی سے پشاور اور کوئٹہ تک وہ ملک دیکھ آئے جس کے بزعمِ خود وہ 'بہترین گیند باز' تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو دورے پر گھوٹکی آئیں تو کفیل بھائی ہیلی کاپٹر پر اپنا نام لکھنے بھی پہنچ گئے جس پر انہیں سیکورٹی اہلکاروں سے مار بھی کھانا پڑی۔
کفیل بھائی کے تاریخی جملے آج بھی ملک بھر کے ٹرکوں کے پیچھے دیکھے جا سکتے ہیں "مایہ ناز آل راؤنڈر کفیل بھائی گھوٹکی والے، لیفٹ آرم اسپن باؤلر کفیل بھائی، رائٹ آرم اسپن باؤلر کفیل بھائی، کرکٹ کا بے تاج بادشاہ کفیل بھائی، کفیل بھائی کو سلام" وغیرہ۔
لیکن اب ان تاریخی جملوں کے حامل ٹرکوں کی تعداد میں روز بروز کمی آتی جا رہی ہے کیونکہ حاکمِ وقت کے اہلکاروں سے نہ ڈرنے والا کفیل اب گھر کی کفالت سے ڈر گیا ہے۔ 2002ء میں اپنے بڑے بھائی پرویز احمد کے انتقال کے بعد سے انہوں نے ٹرکوں پر لکھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ گھر کی کفالت اب ان کے سر ہے اور وہ یہ فریضہ فرنیچر مارکیٹ میں کرسیاں بُن کر انجام دے رہے ہیں۔
فہد کیہر کرکٹ پر واحد اردو بلاگ کرک نامہ (کرک نامہ۔ کام) کے مدیر ہیں۔ وہ ابوشامل کے نام سے ذاتی بلاگ بھی لکھتے ہیں جو 2010ء میں بہترین اردو بلاگ کا اعزاز بھی حاصل کر چکا ہے۔













لائیو ٹی وی
تبصرے (3) بند ہیں