لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کے خلاف عسکری ٹاور توڑ پھوڑ کے مقدمے میں تفتیش کی اجازت دے دی۔

پنجاب پولیس نے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ڈاکٹر یاسمین راشد کو شامل تفتیش کرنے کی استدعا کی تھی جس پر عدالت نے ڈاکٹر یاسمین راشد سے عسکری ٹاور توڑ پھوڑ کے مقدمے میں تفتیش کرنے کی اجازت دے دی۔

پولیس نے استدعا کی کہ ڈاکٹریاسمین راشد کو تھانہ گلبرگ میں سنگین دفعات کے تحت درج مقدمے میں شامل تفتیش کیا جائے گا۔

عدالت نے پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے یاسمین راشد سے کوٹ لکھپت جیل میں تفتیش کرنے کی اجازت دے دی۔

علاوہ ازیں پنجاب حکومت نے جناح ہاؤس حملے کے کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کو ڈسچارج کرنے کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا حکم نامہ ’غیرقانونی‘ اور قانون کی نظر میں پائیدار نہیں ہے۔

یاسمین راشد کو ابتدائی طور پر مینٹیننس آف پبلک آرڈر کے تحت 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 13 مئی کو یاسمین راشد کی رہائی کا حکم دیا تھا، لیکن اسے محض چند گھنٹے بعد 9 مئی سے متعلق مزید تین مقدمات میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا جن میں جناح ہاؤس حملہ کیس بھی شامل ہے۔

3 مئی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے یاسمین راشد کو 23 دیگر مشتبہ افراد کے ساتھ کیس سے بری کر دیا تھا، جج نے کہا کہ انہیں ایک شریک مشتبہ شخص کے انکشاف کی بنیاد پر کیس میں طلب کیا گیا تھا، جس کی قانون کی نظر میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔

لیکن صرف ایک دن بعد پنجاب پولیس نے کہا کہ وہ اس کیس میں یاسمین راشد کو بری کرنے کے حکم نامے کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔

اسی طرح پنجاب حکومت نے آج لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ شمالی چھاؤنی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس محمد اشفاق رانا نے 9 مئی کو ایف آئی آر درج کرائی جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ 15 سو کے قریب پی ٹی آئی کارکنان نے جناح ہاؤس کی طرف جانے والی سڑک بلاک کر دی تھی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ہجوم نے ریاستی اداروں کے خلاف نعرے لگائے اور کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے ہمیں پاک فوج کے دفاتر اور عمارتوں پر حملہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

درخواست کے مطابق پولیس حکام نے ہجوم کو منتشر ہونے کو کہا لیکن ان کے بار بار انتباہ کے باوجود مشتبہ افراد نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا اور پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

درخواست میں ڈاکٹر یاسمین راشد، ڈی آئی جی سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا۔

نگراں پنجاب حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے حقائق کے برعکس ڈاکٹر یاسمین راشد کو مقدمے سے ڈسچارج کیا، ڈاکٹر یاسمین راشد نے جناح ہاؤس پر حملہ کرنے والوں کی ریلی کی قیادت کی تھی، تمام ثبوت موجود ہونے کے باوجود ان کو مقدمے سے ڈسچارج کیا گیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت ڈاکٹر یاسمین راشد کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے، عدالت تفتیش کرنے کے لیے ڈاکٹر یاسمین راشد کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرے۔

پنجاب حکومت نے درخواست اس بنیاد پر دائر کی کہ جج نے یاسمین راشد کو شواہد اکٹھے کرنے کے لیے تحقیقاتی ایجنسی کو کوئی معقول موقع فراہم کیے بغیر جلد بازی میں ڈسچارج کرنے کا حکم جاری کیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ ’لہذا، غیر قانونی حکم نامہ قانون کے خلاف ہے‘۔

مزید کہا گیا ہے کہ حکم جاری کرتے ہوئے عدالت نے تفتیشی افسر کو فرانزک شواہد اکٹھے کرنے نہیں دیے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ یاسمین راشد سے ایک موبائل فون، گاڑی اور میگا فون ابھی برآمد ہونا باقی ہے، جس نے میگا فون کا استعمال کرتے ہوئے ہجوم کو اکسایا تھا اور ہجوم سے کہا تھا کہ وہ حملہ کرنے کے لیے جناح ہاؤس کی طرف بڑھیں۔

درخواست میں انسداد دہشت گردی کے حکم کو انصاف کے مفاد میں معطل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

درخواست گزار نے یہ بھی استدعا کی کہ یاسمین راشد کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی اجازت دی جائے اور مناسب تفتیش کے لیے ان کی تحویل تفتیشی افسر کے حوالے کی جائے۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ درخواست پر کل سماعت کرے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پنجاب پولیس نے اعلان کیا تھا کہ وہ رہنما پاکستان تحریک انصاف ڈاکٹر یاسمین راشد اور دیگر ملزمان کے ریمانڈ کی استدعا پر عدالت کے جاری کردہ حکم کو چیلنج کرے گی۔

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ٹوئٹ کے ردعمل میں آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری ایک بیان میں پنجاب پولیس نے کہا تھا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت دیگر ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں